• صارفین کی تعداد :
  • 5048
  • 9/14/2013
  • تاريخ :

کاتبان وحي 

کاتبان وحی

پيغمبر اکرم (ص) نے کيونکہ ظاہر ميں کسي سے لکھنا پڑھنا نھيں سيکھا تھا اور لوگوں نے بھي آپ کو لکھتے پڑھتے نھيں ديکھا تھا لہٰذا لوگ آپ کو ”‌اْمّي“کہہ کر خطاب کرتے تھے لہٰذا قرآن نے بھي آپ کے لئے اسي لقب کو استعمال کيا اور ارشاد ہوا <--- فَآمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ>( [1] )

”‌يعني تم لوگ ايمان لے آو اللہ پر اور اسکے رسول اْمّي پر“-

اْمّي يعني جوماں سے منسوب ہو اور اْمّي اْسے کہتے ہيں جومادر زادي ان پڑھ ہو،اور اس کے دوسرے معني بھي ہيں ”‌اْمّ القري“ (يعني شہر مکّہ) سے نسبت ديتے ہوئے يعني وہ جو مکہ ميں پيدا ہوا ہو قرآن مجيد ميں مختلف موارد ميں لفظ امي کو اسي ”‌ اْم ّالقراي“ سے مشتق کياگيا ہے مثلاً< ہُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْاُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْہُمْ--->([2])

”‌يعني وہ اللہ جس نے مکہ والوں ميں انہيں ميں سے ايک رسول بھيجا“-

مگر پہلے والا احتمال زيادہ مشہور ہے کيونکہ اوّلاً:دوسري آيات کے ساتھ زيادہ سازگار ہے مثلاً< وَمِنْہُمْ اُمِّيُّونَ لاَيَعْلَمُونَ الْکِتَابَ إِلاَّ اَمَانِيَّ--->([3])

”‌يعني ان ميں سے بعض ان پڑھ ايسے ہيں جو کتاب کو  پڑھنا نہيں جانتے ہيں مگر صرف ان کي آرزوئيں ہيں تو اس آيت ميں جملہ<اَيَعْلَمُونَ الْکِتَابَ> لفظ اْمّيّون کي تفسير ہے ثانياً:قرآن کے معجزہ ہونے کے ساتھ بھي جو چيز زيادہ سازگار ہے وہ آنحضرت کا لکھا پڑھا نہ ہونا ہے جيسا کہ ارشاد ہوا: <وَمَا کُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَابٍ وَلاَتَخُطُّہُ بِيَمِينِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ>([4])

”‌يعني تم نے اس سے پہلے کسي بھي کتاب کو نہيں پڑھاہے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھاہے وگرنہ باطل فکر رکھنے والے افراد شک ميں پڑ جاتے“-

يہ آيت اس بات پر دليل ہے کہ پيغمبر (ص)نے اس سے پہلے نہ کچھ پڑھا نہ لکھا مگر يہ بات اس مطلب پر ہرگز دلالت نہيں کرتي ہے کہ پيغمبر (ص) بالکل لکھنا وپڑھنا ہي نہيں جانتے تھے اسي حد تک معترضين کو خاموش کرنے لئے کافي ہے کيونکہ وہ لوگ پيغمبر (ص)کو اصلاً لکھنے وپڑھنے والا نہيں سمجھتے ہيں اسي لئے وہ لوگ اعتراض کي راہ کو اپنے لئے بند پاتے ہيں،شيخ طوسي(رہ)مذکورہ آيت کي تفسيرميں تحرير کرتے ہيں ”‌مفسرين نے کہا کہ پيغمبر لکھنا نہيں جانتے تھے مگر آيت اس مطلب پر دلالت نہيں کررہي ہے بلکہ صرف اس مطلب کي طرف اشارہ کررہي ہے کہ پيغمبر لکھتے پڑھتے نہيں تھے لہٰذا ايسا بھي ہوتا ہے کہ بعض لوگ لکھتے نہيں ہيں مگر ان ميں لکھنے کي صلاحيت ہوتي ہے يعني وہ ايسا ظاہر کرتے ہيں کہ انہيں لکھنا نہيں آتالہٰذا آيت اس مطلب کي طرف اشارہ کرريہ ہے کيونکہ پيغمبر (ص)نے لکھنا وپڑھنا شروع ہي نہيں کيا تھا لہٰذا آپ کو لکھنے کي عادت نہيں تھي“-([5]) ( جاري ہے )

 

حوالہ جات:

[1] سورہ اعراف آيہ157،158-

[2] سورہ جمعہ آيہ2-

[3] سورہ بقرہ آيہ78-

[4] سورہ عنکبوت آيہ48-

[5] التبيان،ج16ص193-


متعلقہ تحریریں:

رمضان کو سلام رمضان سے مکالمہ

ماہ رمضان، بہار قرآن!