فاطمہ (س) کا مہر
حضرت فاطمہ زہراء، اسوہ کامل
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں
حضرت علي (ع) خدمت رسول (ص) ميں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے نہ پائے- دوسري مرتبہ پھر اسي ارادہ کے تحت خدمت پيغمبر (ص) ميں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے نہ پائے، تيسري مرتبہ جب پيغمبر (ص) کي خدمت ميں پہنچے تو ختمي المرتبت (ص) نے خود دريافت کيا-
اے علي (ع) کيا کوئي حاجت ہے؟
علي (ع) نے فرمايا: جي ہاں!
مگر اظہار نہيں کر سکے- تب خود سرور کائنات (ص) نے فرمايا: "کيا فاطمہ (س) سے عقد کي خواہش رکھتے ہو؟"
حضرت (ص) نے سر جکھا کر ہاں کہہ ديا-
حضرت رسالت مآب (ص) جناب فاطمہ (س) کے حجرے ميں تشريف لے گئے اور فرمايا: "بيٹي علي (ع) تم سے نکاح کے خواہش مند ہيں- تمہاري کيا رائے ہے؟"
حضرت فاطمہ (س) نے قبول کرتے ہوئے سر تسلسم خم کرديا-
پيغمبر اسلام (ص) واپس تشريف لائے اور فرمايا:
" علي (ع) مبارک ہو! فاطمہ (س) کو رشتہ منظور ہے- مگر مجھے اس سلسلے ميں حکم خدا کا انتظار ہے-"
پيغمبر (ص) علي (ع) سے مخاطب تھے کہ جبرئيل امين خوشخبري لے کر حاضر ہوئے کہ پروردگار بعد درود و سلام ارشاد فرماتا ہے کہ " ہم نے جنت ميں علي (ع) کا نکاح فاطمہ (س) سے کرديا ہے- آپ بھي فاطمہ (س) کا نکاح علي (ع) سے کرديں-"
رسول خدا (ص) علي (ع) کو رضائے الہي سے مطلع فرمايا- ساتھ ہي پيغمبر (ص) نے سوال کيا:
" اے علي (ع) فاطمہ (س) کو مہر دينے کے لئے تمہارے پاس کيا ہے؟"
تو اميرالمومنين (ع) فرماتے ہيں:
" ميرے پاس ايک تلوار ہے، ايک ڈھال ہے- ايک اونٹ ہے، ايک گھر ہے اور زرہ ہے مال دنيا کے طور پر-"
اس پر پيغمبر (ص) اسلام نے فرمايا:
"گھر تو ضروري چيز ہے- اونٹ سفر اور تجارت ميں کام آتا ہے- تلوار اور ڈھال جنگ ميں کام آتي ہيں- مگر ہاں تم جوان مرد ہو اور بہادر ہو- زرہ کے بغير بھي تمہارا کام چل سکتا ہے- لہذا اسے فروخت کرکے فاطمہ (س) کا مہر ادا کرو-"
الغرض زرہ فروخت کي گئي- اور اس رقم سے رسول اکرم (ص) نے بيٹي فاطمہ (س) کا جہيز خريد اور وليمہ کيا-
حضرت فاطمہ (س) کا جہيز نہايت ہي قليل تھا- جس ميں چٹائي، چکي، چرخا اور چادر کے علاوہ ايک مشکيزہ اور کچھ مٹي کے برتن تھے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان