• صارفین کی تعداد :
  • 2756
  • 7/17/2012
  • تاريخ :

دہر ميں نقش وفا وجہ تسلي نہ ہوا

ہے يہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معني نہ ہوا

مرزا غالب کی شاعری

دہر ميں نقش وفا وجہ تسلي نہ ہوا

ہے يہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معني نہ ہوا

يعني لوگ جو دُنيا ميں وفا کرتے ہيں ، اس کے معني يہي ہيں کہ تسلي چاہتے ہيں ، جب وفا کرکے تسلي نہ ہوئي تو فقط وفا بے معني و مہمل رہ گيا ، حاصل يہ کہ وفاداريء عشاق بے معني بات ہے -

سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا

يہ زمرد بھي حريفِ دم افعي نہ ہوا

مشہور ہے کہ زمرد کے سامنے سانپ اندھا ہو جاتا ہے ، مگر تيرا سبزۂ خط کيا زمرد ہے کہ افعي زلف پر اس کا اثر نہ ہوا ، يعني خط نکل آنے کے بعد بھي زلف کي دل فريبي ميں فرق نہيں آيا -

ميں نے چاہا تھا کہ اندوہِ  وفا سے چھوٹوں

وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھي راضي نہ ہوا

يعني مر کے غم سے پيچھا چھڑانا چاہا تو اس نے رسوائي و بدنامي کے انديشہ سے اسے بھي گوارا نہ  کيا ، معنوي خوبياں اس شعر ميں بہت سي ہيں ، کثرتِ  اندوہ علاج ميں درماندگي اس پر بھي دل آزاري و جفاکاريء معشوق ، پھر اس حالت ميں بھي اسي کي مرضي پر رہنا -

دل گذرگاہِ  خيالِ  مے و ساغر ہي سہي

گر نفس جادۂ سرمنزل تقوي نہ ہوا

تار اور رشتہ اور خط اور جادۂ نفس کے تشبيہات ميں سے ہيں ، غرض شاعر کي يہ ہے کہ اگر تقويٰ نہ حاصل ہوا تو رندي ہي سہي ، قافيہ تقويٰ ميں فارسي والوں کا اتباع کيا ہے کہ وہ لوگ عربي کے جس جس کلمہ ميں ہي ديکھتے ہيں اُس کو کبھي ’ الف ‘ اور کبھي ’ ي ‘ کے ساتھ نظم کرتے ہيں - ’’ تمني و تمنا ، تجلي و تجليٰ وتسلي و تسليٰ و ہيولي و ہيوليٰ و ديني و دُنيا ‘‘ بکثرت اُن کے کلام ميں موجود ہے -

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

کہتے ہو نہ ديں گے ہم دل اگر پڑا پايا/ دل کہاں کہ گم کيجئے ہم نے مدعا پايا