• صارفین کی تعداد :
  • 488
  • 2/20/2012
  • تاريخ :

افغانستان کا مستقبل

افغانستان کا مستقبل

اسلام ٹائمز: پچھلے چاليس سال کے دوران افغانوں نے ہر طرح کے حالات ديکھے ہيں- سياست ميں مہارت تو ان کي گھٹي ميں پڑي ہے، ليکن زمانے کے زير و بم نے ان کو اتنا بالغ نظر ضرور بنايا ہے کہ اب کے بار وہ شائد کسي عارضي حل کو تسليم نہ کريں اور مستقل حل پر توجہ مرکوز رکھيں- عارضي حل مسلط کرنے کي کوشش کا نتيجہ ماضي ہي کي طرح ہو گا- اس کا ايک مختصر خاکہ يہ ہو سکتا ہے کہ امريکہ جانے والا ہے اس کو رخصت کيا جائے- اس کے ساتھ ايک جانے والے کا معاملہ ہونا چاہيے- القاعدہ کي قوت کو تسليم کيا جائے اور پورے احترام کے ساتھ اس کو اس سطح پر شامل حال کيا جائے کہ اسلامي افغانستان ميں مستحکم نظام بنانے ميں مدد کرے- ديگر تين قوتيں کرزئي، طالبان اور حکمتيار مل بيٹھ کر قابل قبول حل کي جانب بڑھيں-

افغانستان ميں اس وقت پانچ قوتيں مختلف حيثيتوں سے مصروف عمل ہيں، امريکہ، کرزئي حکومت، طالبان، القاعدہ اور گلبدين حکمتيار- چاليس سال سے شورش زدہ ملک کا مستقبل کيا ہو گا، يہ آج کا ہم سوال ہے---- ذيل ميں اس حوالے سے ايک تجزيہ پيش خدمت ہے- 

امريکہ 

2001ء ميں امريکہ جن مقاصد کے ليے افغانستان آيا تھا- ان ميں سے ايک بھي حاصل نہ ہو سکا- اب اس کے اندر سياسي ادارے اور دانشور اس کو لاحاصل جنگ قرار دے رہے ہيں- اس کي اقتصادي صورت حاصل اس قابل ہرگز نہيں رہي کہ يہاں مزيد قيام کر سکے- يہاں پر ہونے والا جاني نقصان بھي امريکہ کے عام شہري کے ليے ناقابل برداشت ہو چکا ہے- تقريباً تمام دنيا اس بات پر متفق ہے کہ جلد يا بدير اس کو يہاں سے جانا ہو گا- ماضي قريب ميں سويت يونين بھي يہاں اسي انداز ميں آيا تھا بلکہ جغرافيائي طور پر قريب اور پڑوسي ہونے کي وجہ سے اس کے ليے امريکہ کے مقابلے ميں آسانياں بہت تھيں- 

وہ اپنے فوجي جوانوں کو ہر چند ماہ بعد واپس لے جا کر دوسرے بھيج سکتا تھا، امريکہ کے ليے ايسا کرنا فاصلہ طويل ہونے کي وجہ سے ناممکن ہے- سويت يونين ميں رائے کي آزادي نہ ہونے کے برابر تھي- چنانچہ اسے سياسي اور عوامي سطح پر کسي مزاحمت کا سامنا نہ تھا- امريکہ ميں تو صدر کو بھي ہر چار سال بعد عوام کے سامنے براہ راست جانا پڑتا ہے- چنانچہ وہ اپنے چاروں سال انتخابي مہم کے طور پر گذارتے ہيں- افغانستان سے امريکہ کي واپسي کے ليے دلائل کافي زيادہ ہيں اور شواہد بھي يہي بتا رہے ہيں کہ اس کا جانا ٹھہر گيا ہے- مستقبل ميں جو بھي منظر نامہ بنے گا، امريکہ کا کردار اس ميں يوں بھي ہو گا کہ موجودہ صورتحال اسي کي پيدا کردہ ہے- چنانچہ اسي کا وزن بھي اسي مناسبت سے ہو گا- 

کرزئي حکومت 

موجودہ صدر کرزئي کو کوئي مانے يا مانے ليکن کابل کے قصر صدارت ميں وہي بيٹھے ہوئے ہيں- ان کي حکومت بظاہر چوں چوں کا مربہ ہے، ليکن سرکاري مشينري اسي کے پاس ہے- امريکہ کي حمايت اسے حاصل ہے اور ايوانوں پر اسي کا قبضہ ہے- اس ليے مستقبل کي نقشہ کشي ميں ان کے کردار کو نظر انداز نہيں کيا جا سکتا- اس حکومت ميں ماضي کے مجاہدين بھي ہيں اور کميونسٹ بھي- مجاہد رہنمائوں ميں اہم ترين پروفيسر برہان الدين رباني اور احمد شاہ مسعود اب دنيا ميں نہيں رہے- قابل ذکر لوگوں ميں پروفيسر عبدرسول سياف ہيں ليکن ان کا دائرہ اثر اب کرزئي کے دائرہ ميں مدغم ہو چکا ہے- کميونسٹ رہنمائوں ميں بھي ملک گير شہرت کي فعال شخصيت شائد ہي کوئي ہو- اس ليے ان سب کے مشترکہ نمائندے کے طور حامد کرزئي سے ہي معاملہ کيا جائے گا- ازبک اور تاجک شائد اپني قيادت سامنے لائيں- 

طالبان 

اپني حکومت کے خاتمہ کے بعد يہ لوگ غاروں ميں جا چکے تھے- انھوں نے کسي بھي مرحلے ميں بندوق نہيں رکھي- وقت گزرنے کے ساتھ ان کي حملہ کرنے اور نقصان پہچانے کي صلاحيت ميں اضافہ ہوا ہے- گوريلا جنگ کا سب سے بڑا صول طويل مدت تک لڑنا اور نتائج سے قطع نظر اپنے حملے جاري رکھنا ہوتا ہے- طالبان اس اصول پر پورے اترے ہيں اور آج پوري دنيا يہ بات تسليم کرتي ہے کہ افغان حکومت چند شہروں تک محدود ہے- باقي ملک طالبان کے زير اثر ہے- کرزئي حکومت پچھلے دس سال ميں ادارے بنانے ميں ناکام ثابت ہوئي ہے- امريکہ کي پشت پناہي ميں قومي پوليس اور ملي فوج تشکيل پا چکي ہے ليکن يہ دونوں ادارے حکومت اور امريکہ کے ليے درد سر ثابت ہو رہے ہيں- اس حوالے سے Internal Killer کے نام سے ايک اصطلاح سامنے آئي ہے- کہ ان اداروں ميں موجود جوان سرکاري ہتھياروں سے امريکيوں اور اپنے اعلٰي افسروں کو مار رہے ہيں- اور کوئي پتہ نہيں چلتا کہ کسي پوليس يا فوجي جوان کي افغانيت کي رگ کسي وقت پھڑک اٹھے اور وہ کسي ملکي يا امريکي فوجي کو بھون ڈالے- 

طالبان کي قوت کو ہر کوئي تسليم کرتا ہے- اگرچہ ان کي پوري قيادت زير زمين ہے اور ان کي تنظيم کے بارے ميں کوئي نہيں جانتا، ليکن ان کي اہميت کا اندازہ ان کي کارروائيوں سے لگايا جاتا ہے- مستقبل ميں ان کا کردار کتنا اہم ہو گا، اس کا اندازہ ان کي پاليسيوں سے لگايا جاتا ہے- سياست اور انتخابات سے وہ يکسر منکر ہيں- افغانستان کے اقتدار کے اصل دعويدار وہي ہيں- ليکن يہ بات سمجھ ميں نہيں آتي کہ کون ان کو اقتدار پليٹ ميں رکھ کر پيش کرے گا- ان کا برسر اقتدار آنے کا طريقہ کار کيا ہو گا- کيا ماضي کي طرح وہ ٹينکوں پر بيٹھ کر قصر صدارت ميں داخل ہوں گے اور ملک کا انتظام سنبھاليں گے يا ايک نظام کے طور پر اقتدار ان کے حوالے کيا جائے گا- اس کا جواب مبہم ہے- 

القاعدہ 

القاعدہ اور طالبان کا قومي اور بين القوامي نظريہ ايک ہے- يہ بھي انتخابات کو غير اسلامي قرار ديتي ہے- مخالف کا ان کے پاس ايک ہي علاج ہے- اس کا وجود ردعمل کے طور پر سامنے آيا تھا- افغانستان سے سويت افواج کے جانے کے بعد اس نے اپني کارروائيوں کا رخ امريکہ کي جانب موڑا- افغانستان اس کا بيس کيمپ تھا- عربي ميں بيس کيمپ کو قاعدہ کہتے ہيں، چنانچہ اس کا نام القاعدہ ہي رکھا گيا- اب يہ پوري دنيا ميں کارراوائياں کرتي ہے اور موجودہ عرب تحريک ميں اس کا فعال کردار ہے- ليکن بات وہي ہے کہ جنگ کے بعد حتمي حل کے ليے مذاکرات ہوتے ہيں اور سياسي فارمولے طے کئے جاتے ہيں- انتخابات کي بات ہوتي ہے- القاعدہ کے نظريات ميں انتخابي عمل کي گنجائش نہيں- افغانستان ميں يہ لوگ بہر حال غير ملکي ہيں اور سياسي حل کي صورت ميں ان کو غير ملکي ہي شمار کيا جائے گا- ان کا اثر کتنا ہي کيوں نہ ہو براہ راست ان کو اہم کردار نہيں ديا جائے گا- ان کا سارا اثر رسوخ طالبان ہي کے ذريعے عمل کي شکل اختيار کرے گا- ليکن دوسري طرف طالبان بھي انتخابي عمل کو ماننے پر تيار نہيں- 

گل بدين حکمتيار 

سابق افغان وزير اعظم گل بدين حکمتيار کي جماعت حزب اسلامي نے تمام تر انقلابات ميں اپنا وجود نہ صرف قائم رکھا ہے بلکہ آج کل افغانستان کے اندر باقاعدہ کارروائياں کر رہي ہے- وہ خود نامعلوم مقام سے اپنے جہاد کي قيادت کر رہے ہيں- طالبان اور القاعدہ کے برعکس وہ انتخابات اور سياسي فارمولے کي بات کرتے ہيں- حاليہ دنوں ميں ان کي جماعت سياسي سطح پر بھي منظم ہونے کي تيارياں کر رہي ہيں- ان کے امريکہ اور حامد کرزئي سے بھي روابط ہيں- انتخابات کے حوالہ سے ان کے نظريات جانے پہچانے ہيں اور يہ آج کي دنيا کا مقبول موقف ہے- مستقبل ميں اسي موقف کو اندروني اور بيروني سطح پر خاصي پذيرائي ملنے کا امکان ہے- 

حاصل بحث 

پچھلے چاليس سال کے دوران افغانوں نے ہر طرح کے حالات ديکھے ہيں- سياست ميں مہارت تو ان کي گھٹي ميں پڑي ہے ليکن زمانے کے زير و بم نے ان کو اتنا بالغ نظر ضرور بنايا ہے کہ اب کے بار وہ شائد کسي عارضي حل کو تسليم نہ کريں اور مستقل حل پر توجہ مرکوز رکھيں- عارضي حل مسلط کرنے کي کوشش کا نتيجہ ماضي ہي کي طرح ہو گا- اس کا ايک مختصر خاکہ يہ ہو سکتا ہے کہ امريکہ جانے والا ہے اس کو رخصت کيا جائے- اس کے ساتھ ايک جانے والے کا معاملہ ہونا چاہيے- القاعدہ کي قوت کو تسليم کيا جائے اور پورے احترام کے ساتھ اس کو اس سطح پر شامل حال کيا جائے کہ اسلامي افغانستان ميں مستحکم نظام بنانے ميں مدد کرے- ديگر تين قوتيں کرزئي، طالبان اور حکمتيار مل بيٹھ کر قابل قبول حل کي جانب بڑھيں- پاکستان اور ايران اس کے پڑوسي ہيں- دونوں کا کردار پڑوسيوں کا رہے- افغانستان کو اپنا زير اثر ملک بنانے کے بجائے افغانوں کي مل بيٹھ کر اپنے مسائل حل کرنے ميں مدد کريں------متذکرہ تين قوتوں کو ايک ميز پر بٹھانے سے قبل کافي کام کرنا ہو گا-

ان قوتوں کو ايک دوسرے کي بات سننے پر آمادہ اور قائل کرنا ہو گا- مسئلہ اتنا خراب ہونے کي ايک وجہ يہ بھي ہے کہ طالبان اور حکمتيار کو ايسے الگ تھلگ رکھا گيا ہے کہ ان کے آپس ميں روابط بھي بہت کمزور ہيں، باہر کي دنيا ہر دو سے دور بھاگتي ہے- يہ روابط استوار کرنے کے ليے غير سياسي اور غير سرکاري قسم کي شخصيات کو آگے آنا ہو گا- معاملہ اتنا طويل الميعاد ہو گيا ہے کہ ايسي شخصيات کا ملنا بھي دشوار ہو گيا ہے- ليکن پاکستان کے اندر يہ ايک بہت بڑي غنيمت ہے کہ حميد گل اور قاضي حسين احمد کي صورت ميں يہ سہولت موجود ہے- ان دو شخصيات کو يہ مشکل کام خود سنبھالنا چاہيے- تمام متعلقہ فريقوں ميں اثر و رسوخ اگر نہيں تو دونوں کا کافي احترام موجود ہے- ان ميں يہ صلاحيت ہے کہ اپنے کام کے ليے طريقہ کار بنائيں اور مستحکم افغانستان کے ليے بنياديں استوار کريں-