• صارفین کی تعداد :
  • 1408
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 19

عاشوره

اذہان کو روشن کرنے اور اس مدعا کي صحيح تصوير کشي کے لئے اس دور ميں اسلامي معاشرے کي صورت حال کي طرف اشارہ کرنا ضروري ہے-

اس زمانے کے لوگوں کو چار گروپوں ميں تقسيم کيا جاسکتا ہے:

پہلا گروپ: يہ گروپ معاشرے کي اکثريت پر مشتمل تھا اور يہ وہ لوگ تھے جو معاويہ کے ظلم و جبر اور ريشہ دوانيوں کے سامنے اپنا عزم و ارادہ کھو چکے تھے اور اسلامي مملکت پر مسلط حکمران خاندان کے فساد و بے راہروي سے معرض وجود ميں آنے والي پستي و و خواري کے سامنے سر تسليم خم کرچکے تھے-

دوسرا گروپ: يہ گروپ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو اپنے ذاتي اور خانداني مفادات کو رسالت و امامت پر ترجيح دے رہے تھے- يہ گروپ پہلے گروپ کے برعکس بني اميہ کے ظلم و برائي کو محسوس نہيں کررہے تھے اور يہ وہ لوگ تھے جو اپنے مفادات کے لئے کسي بھي قوت کا ساتھ دے سکتے تھے يا کسي بھي قوت کي مخالفت کرسکتے تھے اور يہ لوگ در حقيقت کسي کے بھي نہ تھے اور ان کے لئے اقدار يا اخلاق کي کوئي اہميت نہ تھي اور "چڑھتے سورج کو سلام" کا مصداق تھے-

خلاف تيسرا گروپ: يہ گروپ ان سادہ لوح لوگوں پر مشتمل تھا جو بني اميہ کے فريب ميں آئے تھے اور اگر امام حسين عليہ السلام کا قيام و انقلاب نہ ہوتا اور اہل بيت عليہم السلام کي قيادت ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے سچے اصحاب کي کوششيں نہ ہوتيں، تو يہ فريب خوردہ سادہ لوح لوگ کہتے کہ "اگر بني اميہ کي بادشاہت غير قانوني ہوتي اور اگر اس کے کرتوت ناجائز ہوتے تو صحابۂ رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم خاموش نہ رہتے اور بادشاہي نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور خاموش بيٹھے نہ رہتے-

-----

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 15