• صارفین کی تعداد :
  • 778
  • 5/16/2012
  • تاريخ :

منٹو کي پہلي کہاني

منٹو

منٹو: پہلي کتاب ’ آتش پارے‘ کا ٹائيٹل

بيس برس کي عمر تک پہنچنے پر تين بار ميٹرک ميں فيل ہو چکنے کے بعد سعادت حسن منٹو چوتھي کوشش ميں کامياب رہے اور سن 31 ء ميں ميٹرک کا امتحان پاس کر ليا-

ايف اے ميں داخلہ مل گيا اور ايم اے او کالج امرتسر کے ميگزين ’ ہلال‘ کے مدير بھي مقرر ہوگئے ليکن ايف اے پاس کرنا مقدر ميں نہيں تھا-

اپريل 33ء ميں جب وہ بارھويں جماعت کے طالب علم تھے تو ان کي ملاقات اشتراکي اديب باري عليگ سے ہو گئي جو ان دنوں روزنامہ مساوات کے ايڈيٹر تھےاور جن کي کتاب ’ کمپني کي حکومت‘ منفرد انداز کي تاريخ نگاري ميں ايک کلاسيک کا درجہ اختيار کر چکي تھي-

منٹو کي ذہني پرداخت ميں باري عليگ کا نماياں حصہ ہے اور منٹو کي ابتدائي تحريريں انہي کے اخبار ميں شائع ہوئيں-

باري صاحب ہي کي فرمائش يا ہدايت پر منٹو نے وکٹر ہيوگو کے انگريزي ترجمے ’ دي لاسٹ ڈے آف اے کنڈيمنڈ ‘ کو اُردو کے قالب ميں ڈھالا اور بعد ميں آسکر وائلڈ کے ڈرامے ’ ويرا‘ کا بھي ترجمہ کيا-

منٹو کي کاوشيں

 باري صاحب ہي کي فرمائش يا ہدايت پر منٹو نے وکٹر ہيوگو کے انگريزي ترجمے ’ دي لاسٹ ڈے آف اے کنڈيمنڈ ‘ کو اُردو کے قالب ميں ڈھالا اور بعد ميں آسکر وائلڈ کے ڈرامے ’ ويرا‘ کا بھي ترجمہ کيا-

باري صاحب ہي کے باعث منٹو کو روسي ادب ميں دلچسپي پيدا ہوئي تھي چناچہ ايک جگہ منٹو نے بيان کيا ہے کہ اس زمانے ميں روس پر جو کچھ بھي انگريزي زبان ميں ميسر تھا وہ انہوں نے پڑھ ڈالا-

ظاہر ہے ان ميں نامور روسي اديبوں کي کہانياں بھي تھيں جنہيں پڑھنے کے بعد منٹو نے ان کے تراجم شروع کر ديئےجو کہ ماہنامہ ہمايوں کے دسمبر 1933 ء جنوري 1934 ء اور اگست 1934 ء کے شماروں ميں ديکھے جا سکتے ہيں -

منٹو کا پہلا طبع زاد افسانہ امرتسر کے ہفت روزہ ’ خلق ‘ ميں اگست 1934ء ميں شائع ہوا تھا، عنوان تھا’ تماشہ ‘- افسانے کي ابتداء ان الفاظ سے ہوتي ہے-

’ دو تين روز سے طيارے سياہ عقابوں کي طرح پر پھلائے خاموش فضا ميں منڈلارہے تھے جيسے وہ کسي شکار کي جستجو ميں ہوں- سرخ آندھياں وقتاً فوقتاً کسي آنے والے خوني حادثے کا پيغام لا رہي تھيں- سنسان بازاروں ميں مسلح پوليس کي گشت ايک عجيب ہيبت ناک سماں پيش کر رہي تھي اور وہ بازار جو پہلے لوگوں کے ہجوم سے پُر ہوا کرتے تھے اب کسي نامعلوم خوف کي وجہ سے سونے پڑے تھے- شہر کي فضا پر ايک پُر اسرار خاموشي مسلط تھي- ايک بھيانک خوف راج کر رہا تھا‘-

شہر کا يہ ہولناک اور جبرکي فضا ميں گھُٹا ہوا ماحول تفصيل سے دکھانے کے بعد منٹو ہميں ايک ايسے گھر ميں لے آتے ہيں جہاں ايک مياں بيوي، ان کي نوکراني اور ايک چھ سات سال کا بچہ (خالد) رہتے ہيں-

زمانہ انگلش سرکار کا ہے اور شہر ميں عوامي بغاوت کي لہر چلي ہوئي ہے- تعزير سے بچنے کے لئے منٹو نے حکومت اور عوام کي بجائے بادشاہ اور رعايا کے الفاظ استعمال کئے ہيں-

شہر کے ماحول کي عمومي نقشہ کشي کے بعد منٹو کا قلم کيمرہ دھيرے دھيرے اس سات سالہ بچے پر ’ زوم ان ‘ کرتا ہے اور ہميں اس کے’ کلوزاپ‘ تک لے جاتا ہے- ہم ديکھتے ہيں کہ بچہ اپني کھلونا بندوق سے طياروں کو مار گرانے کے درپے ہے-

اسے يہ تو معلوم نہيں کہ يہ طيارے کس نے بھيجے ہيں، ليکن اتنا ضرور جانتا ہے کہ اس سے تباہي پھيل سکتي ہے اور يہ ہم پر گولے برسا سکتے ہيں-      

شہر ميں گڑ بڑ کے باعث سکول بند ہو چکے ہيں اور کاروباري مراکز بھي بند ہيں- غالباً عام ہڑتال ہے- بچہ اس بات پر پريشان ہے کہ آج اسے سکول کيوں نہيں بھيجا گيا- خالد اپنے گھر کي خاموش اور پُر سکون فضا ميں سہما ہوا اپنے والد کے قريب بيٹھا تھا-

’ ابّا آپ مجھے سکول کيوں نہيں جانے ديتے‘

’ بيٹا آج سکول ميں چھٹي ہے‘

’ ماسٹر صاحب نے تو ہميں بتايا ہي نہيں، وہ تو کل کہہ رہے تھے جو لڑکا آج اسکول کا کام ختم کر کے اپني کاپي نہ دکھائے گا اسے سخت سزا دي جائے گي‘

’ آپ کے دفتر ميں بھي چھٹي ہو گئي؟‘

’ ہاں ہمارا دفتر بھي آج بند ہے‘

کچھ دير بعد گھر کاملازم آکر يہ دہشت ناک خبر ديتا ہے کہ شہر کے عوام مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے ہيں جبکہ حکومت نے ہر طرح کے اجتماع پر پابندي لگا دي ہے- مظاہريں اس پابندي کو توڑتے ہوئے جلسہ کرنے کا تہيہ کر چُکے ہيں چنانچہ کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا-

خالد کا باپ يہ خبر سن کر بہت خوف زدہ ہوتا ہے- اُسے يقين ہو جاتا ہے کہ فضا کا غير معمولي سکون، طياروں کي پرواز، بازاروں ميں مسلح پوليس کا گشت لوگوں کے چہروں پر اُداسي کا عالم اور خوني آندھيوں کي آمد کسي طوفان کا پيش خيمہ ہے-

’وہ حادثہ کس نوعيت کاہوگا؟ يہ خالد کے باپ کي طرح کسي کو بھي معلوم نہيں تھاپھر بھي ساراشہر کسي نامعلوم خوف ميں لپٹا ہوا تھا- باہر جانے کے خيال کو ملتوي کر کے خالد کا باپ ابھي کپڑے تبديل کرنے بھي نہ پايا تھا کہ طياروں کا شور بلند ہوا- وہ سہم گيا- ايسا معلوم ہوا جيسے سينکڑوں انسان ہم آہنگ آواز ميں درد کي شدت سے کراہ رہے ہيں-خالد طياروں کا شور سن کر اپني بندوق سنبھالتا ہوا باہر دوڑ آيا اور انہيں غور سے ديکھنے لگا تاکہ وہ جس وقت گولہ پھينکنے لگيں وہ اپني ہوائي بندوق سے انہيں نيچے گرا دے-‘

’اس وقت چھ سال کے بچے کے چہرے پر آہني ارادے اور استقلال کے آثار نماياں تھے جو کہ کم حقيقت بندوق کا کھلونا ہاتھ ميں تھامے ايک جري سپاہي کو شرمندہ کر رہا تھا-آج وہ اس چيز کو جو اسے عرصے سے خوف ذدہ کر رہي تھي مٹانے پر تلا ہوا تھا‘-

ليکن اس کے بعد طياروں سے بم يا گولوں کي جگہ پرچياں گرتي ہيں جن ميں يہ انتباہ درج ہے کہ مظاہرہ کرنے کي کوشش کي گئي تو نتائج انتہائي سنگين ہوں گے اور اس کي تمام تر ذمہ داري مظاہرين پر ہوگي-

خالد کا باپ اشتہار پڑھتا ہے تو اس کے رہے سہے اوسان بھي خطا ہو جاتے ہيں اور رنگ پيلا پڑ جاتا ہے-خالد اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ پرچي پر کيا لکھا ہے تو باپ اُسے ٹالنے کے لئے مختصراً کہتا ہے کہ ’ شام کو کوئي تماشہ ہونے والا ہے ‘

’ تماشہ ہونے والا ہے تو ہم بھي چليں گے نا‘

’ کيا کہا؟‘

’ کيا اس تماشے ميں آپ مجھے نہيں لے چليں گے؟‘

’ لے چليں گے اب جاؤ جا کر کھيلو‘

’ کہاں کھيلوں؟ بازار ميں آپ جانے نہيں ديتے، ماما مجھ سے کھيلتي نہيں، ميرا ہم جماعت طفيل بھي تو آج کل يہاں نہيں آتا اب ميں کھيلوں تو کس سے کھيلوں؟ شام کے وقت تماشہ ديکھنے تو ضرور لے چليں گے نا؟‘

اس کے بعد بچہ سارے گھر ميں بيکار ادھر اُدھر پھرتا رہتا ہے- باہر جانے کي اجازت نہيں، کسي کے آنے کا بھي امکان نہيں اور گھر کے بڑے اس سے کوئي بات کرنا نہيں چاہتے ماحول کا تناؤ اسي طرح بڑھتا رہتا ہے-

آخر بچہ کھڑکي کے پاس آن بيٹھتا ہے اور باہر کا منظر ديکھنے لگتا ہے جہاں دکانيں وغيرہ تو اب بھي بند ہيں ليکن لوگ جوق در جوق کسي طرف جا رہے ہيں- چھ سالہ خالد کا ذہن فوراً ايک نتيجہ نکالتا ہے کہ يہ لوگ اس تماشے کے لئے جا رہے ہيں جس کي پرچياں جہاز سے گرائي گئيں تھيں اور لوگوں نے کاروبار بھي اسي لئے بند کيا ہے کہ وہ تماشہ ديکھ سکيں-

اب خالد بھي انتظار کرنے لگتا ہے کہ کب تماشہ شروع ہو اور اس کا باپ اسے باہر لے کر جائے- ادھر ماں باپ کي پريشاني اب تناؤ کي آخري حدوں کو چھو رہي ہے-

’ وقت گزرتا گيا، خوني گھڑي قريب تر آتي گئي- سہ پہر کا وقت تھا، خالد اس کا باپ اور والدہ صحن ميں بيٹھے ايک دوسرے کي طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے- ہوا سسکياں بھرتي ہوئي چل رہي تھي- تڑ تڑ تڑ تڑ..... يہ آواز سنتے ہي خالد کے باپ کا رنگ کاغذ کي طرح سفيد ہو گيا، وہ زبان سے بمشکل اس قدر کہہ سکا، گولي‘-

خالد کي ماں فرط خوف سے ايک لفظ بھي منہ سے نہ نکال سکي- گولي کا نام سنتے ہي اسے ايسا لگا جسے خود اس کي چھاتي سے گولي اتر رہي ہو- خالد اس آواز کو سنتے ہي کہنے لگا ابا جي چلو چليں- تماشہ شروع ہو گيا ہے- کون سا تماشہ، خالد کے باپ نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا

’وہي تماشہ جس کے اشتہارآج صبح بانٹ رہے تھے- کھيل شروع ہو گيا ہے تبھي تو اتنے پٹاخوں کي آواز سنائي دے رہي ہے‘... اور اس کے بعد وہ تماشہ شروع ہو جاتا ہے جس کے لئے منٹو نے اب تک فضا ہموار کي ہے ليکن افسانہ نگار ہميں اس ميدان ميں لے کر نہيں جاتا جہاں سرکاري اعلان کي پروا نہ کرتے ہوئے لوگوں کا اجتماع ہو چکا ہے اور حکام نے گولي چلانے کا حکم دے ديا ہے- منٹو ہميں اس گھر کي کھڑکي سے ايک منظر دکھاتے ہيں اور وہ بھي اس چھ سالہ بچے کي آنکھ سے ليکن ہميں معلوم ہو جاتا ہے کہ کيا ہوا جلسہ گاہ ميں- گولي کھانے کے بعد ايک نوجوان زخمي ٹانگ سے بھاگتا ہوا اس گھر کے سامنے والي گلي ميں آتا ہے اور گر کر بے ہوش ہو جاتا ہے-

’ خالد کے گھر کے عين مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گرا اور بے ہوش ہو گيا- اس کي پنڈلي پر ايک گہرا زخم تھا جس سے فواروں خون نکل رہا تھا‘-

خالد اپنے باپ کو جا کر بتاتا ہے اور خالد کے باپ ميں پوليس کے خوف سے اتني ہمت بھي نہيں کہ لڑکے کو اُٹھا کر لے آئے- يہاں پہنچ کر مصنف کا قلم ايک بار پھر جذبات کي رو ميں بہ جاتا ہے-

يہ جذباتيت منٹو کي ابتدائي تحريروں کا خاصہ ہے اور پہلے چار پانچ برس کي کہانيوں ميں اس کي مثال جگہ جگہ نظر آتي ہے-

منٹو کا جوش

سن 33ء سے 38 تک کي کہانيوں ميں جوانقلابي جوش اور اشتراکي ولولہ نظر آتا ہے

’ بے سازو برگ افراد کو اُٹھانے کے لئے حکومت کے ارباب حل و عقد نے آہني گاڑياں مہياکر رکھي ہيں مگر اس معصوم بچے کي لاش جو انھي کي تيغِ ستم کا شکار تھي، وہ ننھا پودا جو انھي کے ہاتھوں مسلا گيا وہ کونپل جو کھلنے سے پہلے انھي کي عطا کردہ باد سموم سے جھلس گئي تھي، کسي کے دل کي راحت جو انھي کے جورواستبداد نے چھين لي تھي، اب انھي کي تيار کردہ سڑک پر.... آہ! موت بھيانک ہے مگر ظلم اس سے کہيں زيادہ خوفناک اور بھيانک ہے-

منٹو کي اس پہلي کہاني کا انجام پوليس کي گولي کھا کر سڑک پر بے ہوش پڑے ہوئے نوجوان کے بارے ميں ننھے خالد کے معصومانہ ردِعمل پر ہوتا ہے- کہاني کا عنوان ’ تماشہ‘ ہے اور ’ آئرَني‘ کي تکنيک جو بعد ميں منٹو کي دل پسند تکنيک ثابت ہوئي اس کي پہلي ہي کہاني ميں عياں ہے-

سن 33ء سے 38 تک کي کہانيوں ميں انقلابي جوش اور اشتراکي ولولہ نظر آتا ہے وہ بوجوہ سن 40ء کے بعد آہستہ آہستہ پس منظر ميں چلا گيا- ليکن آئرَني سے منٹو کي فيسي نيشن ان کي آخري تحريروں ميں بھي ديکھي جا سکتي ہے-

تحرير: عارف وقار

پيشکش: شعبہ تحربر و پيشکش تبيان