• صارفین کی تعداد :
  • 2184
  • 1/4/2012
  • تاريخ :

ايك جيب كترے كي توبہ

بسم الله الرحمن الرحیم

حقير (مولف) ايك شب قم ميںفقيہ بزرگوار عارف باللہ، معلم اخلاق مرحوم حاج سيد رضا بھاء الديني كي نماز جماعت ميں شريك تھا-

نماز كے بعد موصوف كي خدمت ميں عرض كيا: ھم آپ ھميں كچھ وعظ و نصيت فرمائیے، چنانچہ موصوف نے جواب ميں فرمايا: ھميشہ خداوندعالم كي ذات پر اميد كرو، اور اسي پر بھروسہ ركھو كيونكہ اس كا فيض و كرم دائمي ھے كسي كو بھي اپني عنايت سے محروم نھيں كرتا، كسي بھي ذريعہ اور بھانہ سے اپنے بندوں كي ہدايت اور امداد كا راستہ فراھم كرديتا ھے-

اس كے بعد موصوف نے ايك حيرت انگيز واقعہ سنايا: شھر ”‌اروميہ“ ميں ايك قافلہ سالار ھر سال مومنين كو زيارت كے لئے لے جايا كرتا تھا:

اس وقت گاڑياں نئي نئي چليں تھيں، يہ گاڑياں ٹرك كي طرح ھوتي تھيں جس پر مسافر اور سامان ايك ساتھ ھي ھوتا تھا، ايك كونے ميں سامان ركھا جاتا تھا اور وھيں مسافر بيٹھ جايا كرتے تھے-

وہ قافلہ سالار كھتا ھيں: اس سال حضرت امام رضا عليہ السلام كي زيارت كے لئے جانے والے تقريباً30 مومنين نے نام لكھوا ركھا تھا، پروگرام طے ھوا كہ آئندہ ہفتہ كے شروع ميں يہ قافلہ روانہ ھوجائے گا-

ميں نے شب چھار شنبہ حضرت امام رضا عليہ السلام كو خواب ميں ديكھا كہ ايك خاص محبت كے ساتھ مجھ سے فرما رھے ھيں: اس سفر ميں ”‌ابراھيم جيب كترے “كو بھي لے كر آنا، ميں نيند سے بيدار ھوا تو بھت تعجب ھواكہ كيوں امام عليہ السلام اس مرتبہ اس فاسق و فاجر اور جيب كترے كو (جو لوگوں كے درميان بھت زيادہ بدنام ھے) اپني بارگاہ كي دعوت فرمارھے ھيں، ميں نے سوچا كہ يہ ميرا خواب صحيح نھيں ھے، ليكن دوسري رات ميں نے پھر وھي خواب ديكھا، نہ كم نہ زيادہ، ليكن اس دن بھي ميں نے اس خواب پر توجہ نھيں كى، تيسري رات ميں نے حضرت امام رضا عليہ السلام كو عالم رويا ميں قدرے ناراحت ديكھا اور ايك خاص انداز ميں مجھ سے فرمارھے ھيں: كيوں اس سلسلہ ميں كوئي قدم نھيں اٹھاتے ھو؟

بھر حال ميں جمعہ كے دن اس جگہ گيا جھاں پر فاسد اور گناھگار لوگ جمع ھوتے تھے ان كے درميان ابراھيم كو ڈھونڈا، سلام كيا اور اس سے مشہد مقدس كي زيارت كرنے كے لئے كھا، ليكن جيسے ھي ميں نے مشہد كي زيارت كے لئے كھا تو اس كو بھت تعجب ھوا اور مجھ سے كھا: امام رضا عليہ السلام كا حرم مجھ جيسے گندے لوگوں كي جگہ نھيں ھے، وھاں پر تو پاك وپاكيزہ اور صاحبان دل جاتے ھيں، مجھے اس سفر سے معاف فرمائيں، ميں نے بھت اصرار كيا ليكن وہ نہ مانا، آخر كار اس نے غصہ ميں كھا: ميرے پاس سفر كے اخراجات كے لئے پيسے بھي تو نھيں ھيں!! ميرے پاس يھي 30 ريال ھيں اور يہ بھي ايك بڑھيا كي جيب سے نكالے ھوئے ھيں! يہ سن كر ميں اس سے كھا: اے برادر! ميں تجھ سے سفر كا خرچ نھيں لوں گا، تمھارے آنے جانے كا خرچ ميرے ذمہ ھے-

يہ سن كر اس نے قبول كرليا، اور مشہد جانے كے لئے تيار ھوگيا، ھم نے بروز اتوار قافلہ كي روانگي كا اعلان كرديا-

چنانچہ حسب پروگرام قافلہ روانہ ھوگيا، ابراھيم جيسے جيب كترے كے ساتھ ھونے پر دوسرے زائرين تعجب كررھے تھے، ليكن كسي نے اس كے بارے ميں سوال كرنے كي ھمت نہ كي-

ھماري گاڑي كچي سڑك پر روانہ تھى، اور جب ”‌زيدر“ نامي مقام پر پہنچي جوايك خطرناك جگہ تھى، اور وھاںاكثر زائرين پر راہزنوں كا حملہ ھوتا تھا، ديكھا كہ راہزنوں نے سڑك كو تنگ كرديا اور ھماري گاڑي كے آگے كھڑے ھوگئے، پھر ايك ڈاكو گاڑي ميں گھس آيا، اور تمام زائرين كو دھمكي دى: جو كچھ بھي كسي كے پاس ھے وہ اس تھيلے ميں ڈال دے، اور كوئي ھم سے الجھنے كي كوشش نہ كرے، ورنہ تو اس كو مار ڈالوں گا!

وہ تمام زائرين اور ڈرائيور كے سارے پيسے لے كر چلتا بنا-

گاڑي دوبارہ چل پڑى، اور ايك چائے كے ھوٹل پر جاركى، زائرين گاڑي سے اترے اورغم و اندوہ كے عالم ميں ايك دوسرے كے پاس بيٹھ گئے، سب سے زيادہ ڈرائيور پريشان تھا، وہ كھتا تھا: ميرے پاس نہ يہ كہ اپنے خرچ كے لئے بھي پيسہ نھيں رھے بلكہ پٹرول كے لئے بھي پيسے نھيں ھيں، اب كس طرح مشہد تك پہنچا جائے گا، يہ كہہ كر وہ رونے لگا، اس حيرت و پريشاني كے عالم ميں اس ابراھيم جيب كترے نے ڈرائيور سے كھا: تمھارے كتنے پيسے وہ ڈاكو لے گيا ھے؟ ڈرائيور نے بتايا اتنے پيسہ ميرے گئے ھيں، ابراھيم نے اس كو اتنے پيسے ديدئے، پھر اسي طرح تمام مسافروں كے جتنے جتنے پيسہ چوري ھوئے تھے سب سے معلوم كركے ان كو ديدئے، آخر ميں اس كے پاس 30 ريال باقي بچے، اور كھا كہ يہ پيسے ميرے ھيں، جو چوري ھوئے تھے، سب نے تعجب سے سوال كيا: يہ سارے پيسے تمھارے پاس كھاں سے آئے؟ اس نے كھا:جس وقت اس ڈاكو نے تم سب لوگوں كے پيسے لے لئے اور مطمئن ھوكر واپس جانے لگا، تو ميں نے آرام سے اس كے پيسے نكال لئے، اور پھر گاڑي چل دى، اور ھم يھاں تك پہنچ گئے ھيں، يہ تمام پيسہ آپ ھي لوگوں كے ھيں-

قافلہ سالار كھتا ھے:ميں زور زور سے رونے لگا، يہ ديكھ كر ابراھيم نے مجھ سے كھا: تمھارے پيسے تو واپس مل گئے، اب كيوں روتے ھو؟! ميں نے اپنا وہ خواب بيان كيا جو تين دن تك مسلسل ديكھتا رھا تھا او ركھاكہ مجھے خواب كا فلسفہ سمجھ ميں نھيں آرھا تھا، ليكن اب معلوم ھوگيا كہ حضرت امام رضا عليہ السلام كي دعوت كس وجہ سے تھى، امام عليہ السلام نے تيرے ذريعہ سے ھم سے يہ خطرہ ڈال ديا ھے-

يہ سن كر ابراھيم كي حالت بدل گئى، اس كے اندر ايك عجيب و غريب انقلاب پيدا ھوگيا، وہ زور زور سے رونے لگا، يھاں تك كہ ”‌سلام“ نامي پھاڑي آگئي كہ جھاں سے حضرت امام رضا عليہ السلام كا روضہ دكھائي ديتا ھے، وھاں پہنچ كر ابراھيم نے كھا: ميري گردن ميں زنجير باندھ دي جائے، اور حرم امام رضا عليہ السلام ميں اسي طرح لے جايا جائے، چنانچہ جيسے جيسے وہ كھتا رھا ھم لوگ انجام ديتے رھے، جب تك ھم لوگ مشہد ميں رھے اس كي يھي حالت رھى، واقعاً عجيب طريقہ سے توبہ كى، اس بڑھيا كے پيسے امام رضا عليہ السلام كي ضريح ميں ڈال دئے، امام رضا عليہ السلام كو شفيع قرار ديا تاكہ اس كے گناہ معاف ھوجائےں، تمام زائرين اس كي حالت پر رشك كررھے تھے، ھمارا سفر بخير و خوشي تمام ھوا، تمام لوگ اروميہ پلٹ گئے ليكن وہ تائب ديا يار ميں رہ گيا!

بشکريہ عقائد شيعۂ ڈاٹ کام

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان