• صارفین کی تعداد :
  • 2620
  • 11/28/2011
  • تاريخ :

عورت اور ترقي  (حصّہ نهم)

حجاب والی خاتون

پاکستاني عورت اور ترقي کا نصب العين  (حصّہ دوّم)

ہمارے خيال ميں خواتين کي اسمبليوں ميں 'صنفي کارکردگي' نہ دکھانے کا سبب مردوں کي طرف سے ان کي مخالفت يا تنقيد نہيں ہے- اگر پاکستان ميں 17 فيصد کي بجائے 77 فيصد خواتين کو اسمبليوں ميں بٹھا ديا جائے تب بھي ان کي يہ نمائندگي پاکستاني خواتين کي اس ترقي کے ضامن نہيں بن سکتي جس کا يہ خواب ديکھتي ہيں- بنيادي طور پر يہ تصور ہي غلط ہے کہ سياست ميں خواتين کي عملي شرکت سے ہي عورتيں ترقي کرسکتي ہيں- يہ مغرب کا تصور ہے جو انہوں نے پسماندہ ممالک کيلئے پيش کيا ہے، ورنہ ان کے ہاں عورتوں کي پارليمنٹ ميں جب نمائندگي نہ ہونے کے برابر تھي، تب بھي وہاں کي عورت ترقي يافتہ تھي- امريکہ، برطانيہ ، فرانس اور جرمني سميت ايک بھي ترقي يافتہ ملک ايسا نہيں جہاں عورتوں کو 33 فيصد نمائندگي حاصل ہو-

پاکستان کي اسمبليوں ميں لبرل اور مغرب زدہ خواتين کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کي خواتين اراکين  اسمبلي بھي موجود ہيں- اسلامي مزاج رکھنے والي ان خواتين کي موجودگي کا اور کوئي عملي فائدہ ہو يا نہ ہو، يہ ضرور ہوا ہے کہ وہ مغرب زدہ خواتين کي طرف سے حدودآرڈيننس اور ديگر اسلامي قوانين کے خلاف کي جانے والي کوششوں کي بھرپور مزاحمت کررہي ہيں- انہوں نے ان مٹھي بھر افرنگ زدہ عورتوں کے اس دعويٰ کو بھي باطل ثابت کيا ہے کہ وہ تمام پاکستاني خواتين کي نمائندگي کرتي ہيں-

پاکستاني عورتوں کي ملکي ترقي ميں شانہ بشانہ کردار کي بات ہو يا عورتوں کے حقوق کے تعين کامعاملہ ہو، پاکستاني مسلمانوں کو فيصلہ کرنا ہے کہ وہ ان جديد چيلنجوں کا حل مغربي معاشرے کي پيروي ميں سمجھتي ہے يا ان مسائل کے حل کے لئے انہيں اسلام سے رہنمائي طلب کرني چاہئے جو کہ آفاقي دين ہے اور جس کي تعليمات ہر زمانے کے لئے ہيں- اسلامي فريم ورک ميں رہتے ہوئے مادّي ترقي کا حصول ہي ہمارا نصب العين ہونا چاہيے-

اسلامي اقدار اور ہمارے خانداني اداروں اور روايات کي قيمت پراگر پاکستاني عورت ترقي کي منازل طے کرتي ہے تو يہ سراسر خسارہ کي بات ہے- اسلام نے عورت اور مرد کے فرائض مختلف قرار ديئے ہيں- عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہي ہے، البتہ بعض استثنائي صورتوں ميں وہ بعض شرائط کي تکميل کے ساتھ گھريلو زندگي کے دائرے کے باہر بھي فرائض انجام دے سکتي ہے- عورتوں کے حقوق کے نام پر کام کرنے والي تنظيميں جو رول ماڈل (نمونہ) پيش کر رہي ہيں، وہ سراسر مغرب کي بھونڈي نقالي پر مبني ہے جس کا نتيجہ معاشرتي اور خانداني نظام کي تباہي کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا-اس بات سے انکار ممکن نہيں ہے کہ پاکستاني معاشرے ميں عورتوں کے حقوق کا بعض صورتوں ميں خيال نہيں رکھا جاتا، مگر ان حقوق کي بازيابي کا وہ تصور اور حل بے حد خطرناک ہے جو اين جي اوز پيش کررہي ہيں- اسلام نے حيا اور عفت کو عورت کا زيور قرار ديا ہے، اس سے محروم ہوکر کوئي عورت اسلام کي نگاہ ميں 'ترقي يافتہ' نہيں ہوسکتي- ہميں 'ترقي' کے وہ معيارات پيش نظر رکھنے ہوں گے جو اسلام کے اخلاقي نصب العين پر پورے اترتے ہوں-

تحرير :  محمد عطاء اللہ صديقي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

عورت اور ترقي  ( حصّہ پنجم)