• صارفین کی تعداد :
  • 2786
  • 11/23/2011
  • تاريخ :

عورت اور ترقي  (حصّہ هفتم)

حجاب والی خاتون

امريکہ ميں عورت (حصّہ دوّم)

1950ء کي دہائي ميں امريکي معاشرہ نسواني فطرت کي حقيقت کي بہت حد تک عکاسي کرتا تھا- اس معاشرے ميں خاندان اپني بچيوں کو تعليم اس غرض سے دلاتے تھے تاکہ ان کے رشتے اچھے گھرانوں ميں ہوجائيں نہ کہ انہيں اچھي ملازمت ملے- پاکستان ميں بھي آج بہت سے خاندان ايسے ہيں کہ اگر ان کي بچيوں کے لئے اچھے رشتے ميسر آجائيں تو وہ ان کي کالج يا يونيورسٹي کي تعليم ادھوري چھوڑ کر شادي کرنے کو ترجيح ديتے ہيں- کيونکہ بڑي عمر کي لڑکيوں کے لئے مناسب رشتوں کا حصول ايک بہت بڑا معاشرتي مسئلہ ہے- امريکي مصنفہ نے تعليمي اسناد کے مقابلے ميں منگني کي ہيرے کي انگوٹھيوں کو ترجيح دينے کي بات کرکينوجوان طالبات کے رومانوي خوابوں کي دنيا ميں اتر کر جھانکا ہے- وہ کيونکہ خود ايک عورت ہيں، اسي لئے خواتين کي رومانوي ترجيحات کو بخوبي سمجھتي ہيں-

ہيولٹ کہتي ہيں کہ جنگ عظيم کے بعد امريکي عورتيں بہترين تعليم يافتہ تھيں اور کسي بھي ترقي يافتہ معاشرے کي عورت کے برابر تھيں- تو پھر وہ پوچھتي ہيں کہ انہوں نے اپني آزادانہ خواہشات کو ترک کرکے گھريلو زندگي کو کيوں اپنايا- اس کا جواب وہ خود ديتي ہيں:

"امور خانہ داري کي طرف يہ زبردست رجحان نتيجہ تھا حکومت کي ان پاليسيوں کا جو اس نے جنگ عظيم کے بعد اپنائيں- اس ميں اہم ترين پاليسي عورتوں کے روايتي کردار کي زبردست حوصلہ افزائي تھي- معاشي حکمت عملي وضع کرنے والوں کے پيش نظر يہ بات تھي کہ عورتوں کو ترغيب دي جائے کہ جنگ کے دنوں ميں انہوں نے جو کام اختيار کئے تھے، اس کو چھوڑ کر گھروں کي راہ ليں تاکہ وہ مرد جو ميدان جنگ سے واپس آئيں ان کيلئے روزگار مہيا ہوسکے- 1946ء تک 40 لاکھ سے زيادہ عورتوں کو پيداواري اداروں کي ملازمت سے چھٹي کرا دي گئي-"

ہيولٹ لکھتي ہيں: "Both persuation and coercion were used to lure Women away from their jobs."

"عورتوں کو ملازمتوں سے دور رکھنے کيلئے ترغيب اور جبر دونوں طريقے استعمال کئے گئے-"

امريکي حکومت نے ايک نيا قانون(G-1 Bill) متعارف کرايا جس کے ذريعے عورتوں کو ملازمت چھوڑنے پر معاشي فوائد کا لالچ ديا گيا- ان پاليسيوں کا نتيجہ کيا نکلا:

"نتيجتاً، امريکہ ميں جنگ کے بعد کا زمانہ عظيم خوشحالي کا زمانہ تھا، 1940ء کي دہائي کے آخري سالوں ميں معيشت بہت متاثر کن شرح سے ترقي کررہي تھي- 1945ء اور 1955ء کے درميان خام قومي پيداوار دوگنا بڑھ گئي- ہم اپني تاريخ کے عظيم ترين عروج کے ادوار ميں سے ايک دور ميں داخل ہوگئے-" (صفحہ :155)

مذکورہ امريکي قانون نے چھوٹي عمر ميں شادي کرنے اور بچے پيدا کرنے والي عورتوں کے لئے مالي منفعت کے سامان پيدا کئے - (صفحہ :157)

ہمارے وہ دانشور جو آج عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ ہرميدان ميں کام کرنے کي ترغيب دے رہے ہيں اور اسے معاشي ترقي کے لئے ضروري سمجھتے ہيں، انہيں چاہئے کہ 1950ء کے عشرے ميں امريکي معاشرے اور اس کي عديم النظير اس ترقي کا بھي جائزہ ليں-

ہيولٹ نے ايک مضمون"The Tender Trap"(1955) سے اقتباس نقل کيا ہے- اس کي يہ سطرديکھئے:

"A Women is not a Women untill She has been married and had children."

"ايک عورت جب تک شادي نہ کرے اور بچے نہ پيدا کرے وہ عورت ہي نہيں ہے-"

وہ مزيد لکھتي ہيں: "پچاس کي دہائي ميں امريکي ميڈيا آزادئ نسواں کي علمبردار عورتوں کو سخت تنقيد کا نشانہ بناتا تھا، يہ عورتيں سابقہ سالوں کي پيشہ ور لڑکياں تھيں-"

امريکہ ميں تحريک آزادئ نسواں کو آگے بڑھانے ميں بيٹي فريڈن Betty Friedan کا نام بہت معروف ہے- 1957ء ميں اس نے اپني کلاس فيلوز کے حوالہ سے ايک تحقيقي سروے کيا کہ وہ تعليم حاصل کرنے کے بعد کيا کررہي ہيں- ہيولٹ نے اس کا حوالہ ديتے ہوئے فرائيڈن کے سروے کے نتائج کو صفحہ160پر يوں بيان کياہے :

"1957ء ميں بيٹي فرايڈن نے اپني کتابThe Femine Mystique کے متعلق ريسرچ کرتے ہوئے سمتھ کالج ميں 1942ء ميں پڑھنے والي اپني کلاس فيلوز کے متعلق سروے کيا- وہ چاہتي تھي کہ ديکھے اس کي ہم جماعت لڑکياں اب کياکررہي ہيں-اس نے ديکھا کہ يہ اعليٰ تعليم يافتہ لڑکياں مکمل طور پر مائيں اور بيوياں بننے ميں غرق تھيں- 189 عورتوں ميں سے جنہوں نے سوالنامے واپس کئے، 179 شادي شدہ تھيں، 6 غير شادي شدہ، ايک بيوہ اور تين طلاق يافتہ تھيں- صرف 11 کے بچے نہ تھے- اوسطاً ہر عورت کے تين بچے تھے، 54 عورتوں کے 4 يا اس سے زائد بچے تھے- سمتھ کالج کي ان گريجويٹ لڑکيوں کي اکثريت ہاوس وائف' (گھرہستن) تھي- حتيٰ کہ وہ عورتيں جن کے بچے سکول ميں تھے، انہيں بھي باہر کے ماحول ميں دلچسپي کم ہي تھي، انہوں نے 1950ء کي دہائي کي اس دانش کو مکمل طور پر اپني سوچ کا حصہ بنا لياتھا جس کي رو سے فيملي اور ملازمت کو ساتھ ساتھ چلانا ممکن نہيں ہے- 189 ميں سے صرف 12/ ايسي تھيں جو ہمہ وقتي ملازمت کرتي تھيں اور صرف ايک ہي خاتون ايسي تھي جو اپني ملازمت کو بطور پيشہ اپنانے ميں بے حد سنجيدہ تھي- چند ايک ايسي بھي تھيں جو جزوقتي کام کرتي تھيں-"

ہيولٹ نے اپنے مضمون کا خاتمہ"The Saturday Evening Post"کے 1962ء ميں شائع شدہ مضمون کي ان سطور پر کيا ہے:

"To make a women completely content it takes a man, but the chief purpose of her life is motherhood, (p.163)

"ايک عورت کو مکمل طور پر سکون کے حصول کے لئے ايک مرد کي ضرورت ہے، مگر اس کي زندگي کا بنيادي مقصد ماں کا کردار (ممتا) ہے-" (صفحہ:163)

يہ بات ذہن نشين رہے کہ امريکي معاشرے کي يہ تصوير 'انساني حقوق کے اعلامئے' (1948ء) کے بعد کي ہے، جس کي رو سے عورت اور مرد کو مساوي قرار ديا گياتھا، ابھي مساوي حقوق کا 'فتنہ' برپا نہيں ہوا تھا-

امريکہ ميں 1960ء کي دہائي ميں تحريک آزادئ نسواں کا دوسرا دور شروع ہوا- جنسي انقلاب کے سيلاب نے روايتي معاشرے کي شاندار اقدار کو خس و خاشاک کي طرح بہا ديا- خانداني اقدار کو نشانہ بنايا گيا- خاندان جو پہلے عورت کے لئے جنت تھا، اب اسے عورت کے استحصال کا ذريعہ بنا کر پيش کيا گيا- گھريلو زندگي کے روايتي کاموں کو دقيانوسي ظاہر کياگيا- عورت کو گھر سے نکل کر مرد کا مقابلہ کرنے کي ترغيب دي گئي- ايسے افلاطون ميدان ميں کود پڑے جنہوں نے جعلي تحقيقات سے يہ 'ثابت' کردکھايا کہ عورت ہر اعتبار سے مرد کے نہ صرف برابر ہے، بلکہ اس سے بہتر ہے- مرد کو ظالم اور بھيڑيا بنا کر پيش کيا گيا- نسوانيت اور حيا کو عورت کے زيور کي بجائے اس کي غلامي کي زنجيريں قرا رديا گيا- مرد کي غلامي سے آزادي کے لئے عورتوں کي اقتصادي آزادي کا نعرہ لگايا گيا-

بيٹي فرائيڈن کي کتاب"Feminine Mystique" (1963)نے عورتوں کي آزادي کے نئے تصور کو مقبول بنانے ميں اہم کردار ادا کيا- عورتوں ميں بغاوت اور تصادم کے نظريات رواج پانے لگے- گھروں کا سکون تلپٹ ہوگيا- 'عورتوں کے حقوق' کے نام پر فساد انگيزي پر مبني لٹريچر سے بازار اَٹ گئے-  ذرائع ابلاغ نے نئے راگ الاپنا شروع کرديئے- عورت کي آزادي کے علمبرداروں نے عورت کو گھر سے نکال کر منڈي کي چيز بنا ديا، اس کا استحصال کيا گيا مگر وہ اسے 'آزادي' سمجھتي رہي- آج امريکہ ميں خانداني ادارہ تباہي کے آخري کنارے پر ہے، ان کے دانشوروں کو سمجھ نہيں آرہي کہ اس ادارے کو تباہي سے کيونکر بچايا جائے- مگر يہي امريکي دانشور مسلمان ممالک کے خانداني نظام کو تباہ کرنے کے لئے بے چين نظر آتے ہيں- آج يہودي منصوبہ ساز مسلمان ممالک کي پسماندگي کي وجہ يہ قرار دے رہے ہيں کہ وہاں عورتوں کو ترقي کے عمل ميں شريک نہيں کيا جا رہا- اين جي اوز کے ذريعے عورتوں کے حقوق کے نام پر انہيں خاندان کے پرسکون ماحول سے نکالنے، ان کے اندر ممتا کا احساس ختم کرنے اور انہيں'مرد' بنانے کي سازشيں عروج پر ہيں- ابھي چند دن پہلے روزنامہ 'جنگ' ميں حسن نثار کا کالم نگاہ سے گذرا جس ميں انہوں نے عرب معاشرے کي پسماندگي کے متعلق مغربي دانشوروں کي کانفرنس کي رپورٹ نقل کي جس ميں بتايا گيا کہ عرب معاشرے اس وقت تک ترقي نہيں کرسکتے جب تک وہاں کي عورتيں مردوں کے شانہ بشانہ کام نہيں کرتيں!

تحرير :  محمد عطاء اللہ صديقي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

عورت اور ترقي  (تيسرا حصّہ)