• صارفین کی تعداد :
  • 1793
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

بعض بلاؤ ں کي حکمت

قرآن کریم

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ، کبھي کبھي خداوند متعال کي حکمت اور حق کي رحمانيت اس بات کا موجب ہوتي ہے کہ غير طبيعي راستوں سے اپنے بندوں پر لطف کرے اور اپني نعمت ان پر نازل کرے-

اس مقصد کے لئے خداوند متعال مادي اسباب و علل کے علاوہ دوسرے اسباب و علل قرار ديتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے کہ ان کے وسيلے سے لوگ اپنے کو الٰہي رحمت و نعمت کا مستحق بنائيں، يہ معني بھي خداوند متعال کے لطف اور اس کي رحمت کا مقتضي ہے، خلقت کا نظام، حکمت کي بنياد پر ہے اور انسان کي تخليق کا مقصد ہدايت اور تکامل ہے، اور ہدايت و تکامل، اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ لوگ آيات الٰہي کي معرفت اور ان ميں تدبر، بندگي، دين حق نيز انبياء الٰہي کے احکام پر عمل کرتے ہوں، ليکن کبھي کبھي لوگ گناہ اور معصيت کے نتيجہ ميں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہيں، عام طور سے لوگ جس وقت مادي عيش و آرام ميں ہوتے ہيں اور اقتصادي اور مادي لذتوں سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے کوئي مشکل نہيں رکھتے اور ان کي ہر من پسند چيز فراہم ہوتي ہے تو اس وقت خدا اور معنويات کي طرف بہت کم توجہ ديتے ہيں- ايسے وقت ميں، انساني اور الٰہي خصلتيں ان کے اندر دھيرے دھيرے کمزور ہونے لگتي ہيں اور آخر کار فراموشي کي نذر ہو جاتي ہيں، نتيجہ ميں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشي و گمراہي پيدا ہو جاتي ہے-

قرآن مجيد ارشاد فرماتا ہے: (کَلاَّ ِنَّ الِنسَانَ لَيَطْغيٰ* اءَن رَّئٰ اہُ اسْتَغنيٰ)1 جس وقت انسان اپنے کو بے نياز خيال کرليتا ہے تو سرکشي کرنے لگتا ہے- اگر ايک معاشرہ اور امت کي اکثريت پر سرکش اور استکباري فکر حاکم ہو تو خداوندمتعال کا لطف اور اس کي عنايت اس بات کا سبب بنتي ہے کہ کسي بھي طرح سے انسانوں کو ہوشيار کرے، ان کو خواب غفلت سے بيدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگي کي طرف واپس لے آئے-

اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھي کبھي بلائيں، جيسے فقر اور قحط نازل کرتا ہے اور دوسري طرف ان بلاؤ ں کے رفع کرنے او ران کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار، خدا کي طرف توجہ اور نماز کو بتاتا ہے تاکہ نتيجہ ميں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور يہي انسان کي اختياري ہدايت اور تکامل ہے- يہ بات بھي  تعجب خيز الٰہي سنتوں ميں سے ايک رہي ہے کہ کبھي کسي نبي  کو مبعوث کرتا تھا اور اس کي امت کو سختيوں ميں مبتلا کرتا تھا تاکہ وہ خدا اور راہ حق سے غافل نہ ہوں، نيز مادي لذتوں ميں غرق ہونا ان کو سعادت سے باز نہ رکھے-

بہرحال بعض بلاؤ ں کا نزول، غافل انسانوں کي توجہ اور بيداري کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات ميں انسان بہتر طور پر خدا سے اپني احتياج کو درک کرتا ہے اور عيش و آرام کي زندگي سے بہتر بلاؤ ں کي زندگي ميں وہ انبياء کي تعليمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے ، قرآن کريم فرماتا ہے: (وَ مَا اَءرْسَلنَا فِي قَريَةٍ مِن نَّبِيٍّ ِلاَّ اءَخَذنَا اءَہْلَہَا بِاْلبَاءسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ يَضَّرَّعُونَ)2 اور ہم نے جب بھي کسي قريہ يا شہر ميں کوئي نبي بھيجا تو اہل قريہ يا اہل شہر کو نافرماني پر سختي اور پريشاني ميں ضرور مبتلا کيا کہ شايد وہ لوگ ہماري بارگاہ ميں تضرع و زاري کريں-

سورہء مومنون کي آيت 75 اور 76 بھي اسي مطلب کي وضاحت کرتي ہے:

(وَ لَو رَحِمنَاہُم وَ کَشَفْنَا مَابِہِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغيَانِہِم يَعمَہُونَ* وَ لَقَد اءَخَذنَاہُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّہِم وَ مَايَتَضَرَّعُونَ)

اور اگر ہم ان پر رحم کريں اور ان کي تکليف اور سختي کو دور کرديں تو بھي يہ اپني سرکشي پر اڑے رہيں گے اور گمراہ ہي ہوتے جائيں گے، اور ہم نے انھيں عذاب کے ذريعہ پکڑا بھي مگر يہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہي گڑگڑاتے ہيں-

اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کي سختيوں کا فلسفہ لوگوں کي بيداري اور راہ ہدايت کي طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ يہ سختياں، پريشانياں اور بلائيں بعض امتوں کو بيدار نہ کريں اور وہ لوگ اسي طرح ضلالت و گمراہي پر اڑے رہيں، کہ اس صورت ميں حجت ان پر تمام ہو جاتي ہے اور انھيں چاہئے کہ ان بلاؤ ں کے نزول کے منتظر رہيں جو کہ ان کي حيات اور زندگي کا خاتمہ کرديں گي-

قرآن سورہء انعام کي آيات 42 سے 44 تک، حضرت پيغمبر اسلام  غ– کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

(وَ لَقَد اءَرسَلنَا ِليٰ اءُمَمٍ مِن قَبلِکَ فَاَءَخَذنَاہُم بِالبَاسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّہُم يَتَضَرَّعُونَ * فَلَو لا ِذْجآئَ ہُم بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لٰکِن قَسَتْ قُلُوبُہُم وَ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيطٰنُ مَا کَانُوا يَعمَلُونَ * فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحنَا عَلَيہِم اءَبوَابَ کُلِّ شَيئٍ حَتَّيٰ ِذَا فَرِحُوا بِمَا اءُوتُوا اءَخَذنَاہُم بَغتَةً فَاِذَاہُم مُبْلِسُونَ)

يعني 'ہم نے تم سے پہلے والي امتوں کي طرف بھي رسول بھيجے ہيں اس کے بعد انھيں سختي اور تکليف ميں مبتلا کيا کہ شايد ہم سے گڑگڑائيں، پھر ان سختيوں کے بعد انھوں نے کيوں فرياد نہيں کي، بات يہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہيں اور شيطان نے ان کے اعمال کوان کے لئے آراستہ کرديا ہے، پھر جب ان نصيحتوں کو بھول گئے جو انھيں ياد دلائي گئي تھيں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چيز کے دروازے کھول ديئے، يہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش ہوگئے تو ہم نے اچانک انھيں اپني گرفت ميں لے ليا اور وہ مايوس ہوکر رہ گئے'' -

ہميں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ يہ سنت الٰہي ہے جو کہ پہلے والي امتوں ميں جاري رہي ہے اور نبيغ– آخرالزمان کي امت بھي اس سے مستثنيٰ نہيںہے-

بہرحال صاحبان بصيرت اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اپني سعادت اور سرنوشت کي فکر رکھتے ہيں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤ ں کا وجود، عبرت و ہدايت کا ذريعہ ہے- اسي کے برعکس جيسا کہ قرآن مجيد فرماتا ہے کہ ايسے انسان بھي ہيں جو ايسے خواب غفلت ميں پڑے ہوئے ہيں کہ کسي بھي ٹہوکے اور نصيحت سے نصيحت حاصل نہيں کرتے اور ہوش ميں نہيں آتے-

لہٰذا وہ بلائيں اور سختياں جو معاشروںاور قوموں کے لئے لوگوں کو بيدار کرنے اور ہوش ميں لانے کي خاطر پيش آتي ہيں وہ سابق انبياء  کي امتوں سے مخصوص نہيںہيں، بلکہ يہ مسئلہ الطاف الٰہي ميں سے ہے جو کہ امتوں کي بيداري اور خدا کي طرف توجہ کے لئے واقع ہوتا ہے، جو بات اہم ہے وہ ايسے حوادث کے فلسفہ او رراز کو سمجھنا، گزشتہ سے عبرت حاصل کرنا، خدا کي طرف بازگشت اور توبہ ہے- نہايت افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے ميں بہت کم لوگ اس مسئلہ کي طرف توجہ کرتے ہيںاور اسي غفلت کي بنا پر اقتصادي بحرانوں سے نجات کے لئے (کہ انھيں ميں سے قحط اور پاني کي کمي کا بحران ہے)، بعض عہدہ دار افراد غفلت و بے توجہي کي بنا پر يا ايماني اور اعتقادي کمزوري کي بنا پر غير خدا کا دامن تھام ليتے ہيں اور مسلمانوں کے بيت المال سے زيادہ پيسے خرچ کر کے اسکيميں تيار کرتے ہيں تاکہ شيميائي مادوں کے ذريعے بادلوں ميں پاني بھر کر بارش ايجاد کريں، کتنا باطل خيال ہے! کيا بارش کي علت تامہ يہي بادل کا وجود اور ہوا کے ذريعے اس کا منتقل ہونا اور دوسرے چند محدود اسباب ہيں کہ انسان مکڑي کي طرح اپنے ہي بنے ہوئے جالوں ميں پھنس کر مغرور ہو جائے نيز بندگان خدا اور مسلمان عوام کو بجائے اس کے کہ خدا او راس کے احسان و عنايت کے دامن سے متوسل ہونے کي طرف متوجہ کرے، پہاڑوں کي چوٹيوں پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرے او ران کا شکار کرنے کے بعد پھر ان ميں پاني بھر کر بارش برسائے؟

واقعاً يہ بات حضرت نوح  ـ اور ان کے فرزند کے واقعہ کو ياد دلاتي ہے کہ  حضرت نوح  ـ 95ظ  سال تبليغ کے بعد خدا پر اپني قوم کے ايمان لانے سے مايوس ہوگئے، ان کي ہدايت سے نااميدي اور عذاب کي علامتيں ظاہر ہونے کے بعد انھوں نے اپنے بيٹے سے چاہا کہ ايمان لے آئے اور کشتي پر سوار ہو جائے تاکہ اس قطعي و يقيني عذاب سے نجات حاصل کرلے- اس نے اپنے باپ کے جواب ميں اپنے شرک آلود خيال کو اس طرح بيان کيا کہ: (سَاٰوِ اِلٰي جَبَلٍ يَعْصِمُنِْ مِنَ الْمَائِ)1 ميں پہاڑ کي چوٹي پر پناہ لے لوں گا تاکہ وہ مجھے غرق ہونے سے بچالے، جيسا کہ ہم جانتے ہيں کہ آخر کار وہ ايمان نہ لايا اور ہلاک ہوگيا، خداوند متعال اس واقعہ کا ذکر کرکے شرک آلود فکر کي اصل کو بيان کر رہا ہے اور لوگوں کو اس سے ڈرا رہا ہے-

اب بھي يہ شرک آلود فکر بعض لوگوں کے درميان خصوصاً مغرب زدہ روشن فکر افراد ميں رائج ہے- وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدا پر ايمان رکھيں اور قلم و بيان سے لوگوں کو خدا کي طرف بلائيں، مشکلات کو دور کرنے کے لئے اسلام و مسلمين کے دشمنوں کے ہاتھوں کي طرف نگاہيں جمائے ہوئے ہيں اور انھيں سے مدد کي اميد رکھتے ہيں-

صاحبان علم و فہم پر پوشيدہ نہيں ہے کہ ہم علمي ترقي اور انساني علوم کي ايجادات کے مخالف نہيں ہيں کيونکہ دين و قرآن اور توحيدي مکتب فکر، ہر مکتب فکر سے زيادہ انسانوں کو علم و دانش کے حصول اور انساني افکار و خيالات سے حاصل شدہ چيزوں سے استفادہ کي طرف دعوت ديتا ہے- جس بات کي نفي پر يہاں تاکيد کي جارہي ہے اور جس کے سخت اور سنگين نتائج سے خبردار کيا جارہا ہے، يہ شرک آلود فکر ہے کہ نہايت افسوس ہے کہ اس ميں مبتلا افراد ہمارے معاشرے ميں کم نہيں ہيں-

بہرحال سب سے زيادہ بہتر، نزديک اور اطمينان بخش راستہ فردي و اجتماعي مشکلات کو دور کرنے کے لئے خانہء خدا کے درپر واپس آنا ہے اس لئے کہ راہ خدا کا انتخاب اس بات کے علاوہ کہ ہماري ابدي و اخروي سعادت کا ضامن ہے، دنيوي زندگي کے مشکلات اور بحرانوں کو بھي دور کرتا ہے، (فَقُلتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً يُرسِلُ السَّمَائَ عَلَيکُم مِدرَاراً)1

پس ميںنے لوگوں سے کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو بے شک وہ بہت زيادہ بخشنے والا ہے وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار پاني برسائے گا، نتيجہ ميں باغ وجود ميں آئيں گے اور نہريں جاري ہوں گي-

اس بنا پر قرآن، نقائص اور کميوں کو دور کرنے اور مسلمانوں کے امور ميں کشائش کے لئے اپنے پيرؤوں کے لئے راہ حل پيش کرتا ہے اور ان راستوں کي افاديت کي ضمانت ليتا ہے- اس کے علاوہ، مسلمان جيسا کہ بارہا آزما چکا ہے دوبارہ پھر آزما سکتا ہے-

بے شک ايران کے اسلامي انقلاب کي کاميابي ہمارے اسلامي معاشرہ پر نصرت الٰہي اور خدا کي غيبي امدادوں کے معجزنما نمونوں ميں سے ايک ہے- جس وقت کہ تمام لوگ خدا پر توکل اور اس کے غير سے اميد قطع کر کے اسلامي حکومت کے خواہاں ہوئے، خدا نے اپنے وعدہ کي بنا پر کہ قرآن ميں فرماتا ہے: (ِنْ تَنصُرُوْا اللّٰہَ يَنصُرْکُمْ وَ يُثَبِّتْ اءَقدَامَکُمْ)1  (اگر تم اللہ کي مدد کرو گے تو وہ بھي تمھاري مدد کرے گا اور تمھيں ثابت قدم بنا دے گا)، دشمن اسلام کي تمام حمايتوں کے ساتھ ڈھائي ہزار (25ظ ظ ) سالہ شہنشاہي حکومت کي تمام قوتوں کے برخلاف، لوگوں کو ان کے دشمنوں پر فتحياب کيا، اور يہ سنت الٰہي اس وقت تک جاري رہے گي جب تک لوگ خدا کي طرف متوجہ رہيں گے خدا بھي ان کي مدد فرمائے گا اور جب وہ خدا کو بھول جائيں گے، غير خدا سے مدد کي اميد رکھنے لگيں گے اور خدا سے منھ موڑ ليں گے تو عذاب و ذلت سے دوچار ہو جائيں گے-

بہرصورت، اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ قرآن کريم علم الٰہي کا نسخہء شافيہ ہے اور دنيا و آخرت ميں انسان کي سعادت و نجات، اس کے حيات بخش احکام کي پيروي ميں پوشيدہ ہے، اور فردي و اجتماعي مشکلات کا راہ حل اسي ميں تلاش کرنا چاہئے- ہميں چاہئے کہ قرآن يعني انسان کي سعادت کے اس ضامن کو پہچانيں، اس کي تعظيم و تکريم کريں اور اس پر عمل کريں- البتہ قرآن کے متعلق دو طرح کي تعظيم و تکريم پائي جاتي ہے کہ ذيل ميں ہم اس کي طرف اشارہ کر رہے ہيں-