• صارفین کی تعداد :
  • 825
  • 8/28/2011
  • تاريخ :

ليبيا: ڈکٹيٹر کے فرار کے بعد طرابلس کي جيلوں سے 20 ہزار قيدي آزاد

ڈکٹيٹر  معمر قذافی
ليبيا کي قومي عبوري کونسل کي سياسي اور خارجہ امور کي کميٹي کے رکن عبدالسلام عربي نے کہا ہے کہ طرابلس پر کنٹرول کے بعد بيس ہزار قيديوں کو آزاد کرديا گيا ہے-

ابنا: عبدالسلام عربي نے جمعہ کے روز العالم ٹي وي سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انقلابيوں نے دارالحکومت طرابلس ميں واقع بوسليم جيل سے سترہ فروري سے اب تک گرفتار ہونے والے تمام قيديوں کو آزاد کرديا ہے-

انہوں نے انقلابيوں کو ملنے والي کاميابي پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اميد ظاہر کي کہ قذافي کے بغير ليبيا کا مستقبل تابناک ہوگا-

ان کا کہنا تھا کہ ليبيا کو گزشتہ بياليس برسوں کے دوران تمام شعبوں ميں پسماندگي کے سبب مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اب ہماري پاليسي ملک کے عوام کي خدمت کي پاليسي ہوگي-

عبدالسلام عربي نے کہا کہ ليبيا مستقبل ميں کسي بھي ملک يا طاقت پر انحصار نہيں کرے گا اور عبوري کونسل عوام کي خواہشات اور آزادي و خود مختاري کو اہميت ديتي ہے-

ادھر ايک تازہ اطلاع کے مطابق چھے بلٹ پروف گاڑيوں کا قافلہ کہ جن ميں ممکنہ طور پر ليبيا کے اعلي حکام حتي خود معمر قذافي سوارتھا، ليبيا سے الجزائر ميں داخل ہوا ہے-

الجزائر کي سرحد کے قريب واقع قدامس شہر ميں قذافي حکومت کے مخالفين کي فوجي کونسل کے ايک ذريعے نے کہا ہے کہ چھ بلٹ پروف مرسڈيز گاڑياں جمعہ کے روز اس شہر ميں داخل ہوئيں-

اس ذريعے نے مزيد کہا کہ ليبيا کے صدارتي گارڈز کے ايک دستے نے ان گاڑيوں کو الجزائر کي سرزمين تک پہنچايا اور انقلابي وسائل اور ہتھيار کم ہونے کي بنا پر اس قافلے کو روکنے ميں کامياب نہيں ہو سکے-

اسي ذريعے نے مزيد کہا کہ ممکنہ طور پر ان گاڑيوں ميں ليبيا کے اعلي حکام ، قذافي اور اس کے بيٹے سوار تھے-

الجزائر اور ليبيا کے ذرائع نے ابھي تک اس خبر کي تصديق نہيں کي ہے-

ياد رہے جب سے انقلابيوں نے طرابلس پر کنٹرول حاصل کيا ہے تب سے معمر قذافي لاپتہ ہے-

الجزائر کي وزارت خارجہ کے ترجمان عمار بلاني نے کہا ہے کہ ان کا ملک ليبيا کے داخلي امور ميں مداخلت کو رد کرتا ہے اور وہ وہاں کے واقعات کے بارے ميں مکمل طور پر غيرجانبدار ہے-

دوسري جانب اقوام متحدہ کے سيکرٹري جنرل بان کي مون نے ليبيا ميں قيام امن کے ليے وہاں بين الاقوامي پوليس کي تعيناتي پر زور ديا ہے-

ادھر ليبيا کے بارے ميں سلامتي کونسل کي قرارداد نمبر 1973 کي بنياد پر ليبيا کے امور ميں کي جانے والي يورپي ممالک کي براہ راست مداخلت پر ماہرين اور مقامي سياستدانوں کو خدشات لاحق ہوگئے ہيں اور وہ سمجھتے ہيں کہ ليبيا کے عوامي انقلاب کو ہائي جيک کرنے کے لئے امريکہ اور اس کے يورپي اتحادي اس ملک ميں اپنے فوجي تعينات کرکے اور اس ملک کے قدرتي ذخائر قبضہ جمانا چاہتے ہيں-

دريں اثناء نيٹو کے سيکرٹري جنرل فوگ راسموسن نے ايک بيان ميں کہا ہےکہ نيٹو نے ليبيا ميں فوجي آپريشن کي کمانڈ مکمل طور پر سنبھال لي ہے اور ان کا مقصد قذافي کو فوجوں سے شہريوں کو بچانا ہے- جبکہ مبصرين کا کہنا ہے کہ نئے فيصلے کے بعد نيٹو ليبيا کے شہروں پر بمباري کرنے کے علاوہ اس ملک ميں اپنے فوجي بھي تعينات کرسکتي ہے-

يہ وہ مسئلہ کہ جس پر ليبيا کے عوام نئي انقلابي قيادت کو مکمل توجہ ديني چاہيے اس لئے کہ اگر انقلابي قيادت مغرب کے جھانسے ميں آگئي تو ڈکٹيٹر قذافي کي انانيت کي بھينٹ چڑھنے والے شہدا کا خون رائگان جائے گآ-

انساني حقوق کے لئے کام کرنے والي تنظيموں کي رپورٹوں کے مطابق ليبيا ميں انقلابي تحريک شروع ہونے کے بعد سے اب تک چھ ہزار سے زيادہ افراد اپني جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں- قذافي اور اس کے خاندان نے 42 سالہ تسلط کے عوام کے خلاف بے پناہ مظلم ڈھائے اور اب ان کے جواب دينے کا وقت آن پہنچا ہے-

28 جون کو انٹرنيشنل کريمنل کورٹ نے ليبيا کے ڈکٹيٹر معمر قذافي، اس کے بيٹے سيف الاسلام ، ليبيا کے خفيہ ادارے کے سربراہ عبداللہ السنوسي اور قذافي کے ساتھي 80 کے قريب اعلي افسران اور کمانڈروں کے وارنٹ گرفتاري جاري کر ديئے ہيں- ان افراد پر ليبيا ميں جنگي جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام ہے-

يہ الزامات ايک ايسے وقت ميں لگائے گئے ہيں کہ جب مئي کے مہينے ميں انٹرنيشنل کريمنل کورٹ کے اٹارني جنرل لوئيس مورينو اوکامپو نے پہلي مرتبہ قذافي اور اس کے کچھ ساتھيوں پر ايسے ہي الزامات لگائے تھے اور ان کے وارنٹ گرفتاري جاري کرنے کي درخواست کي تھي- ليکن اس کے بعد بھي قذافي کے جرائم کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ بين الاقوامي عدالت کو ان کے وارنٹ گرفتاري جاري کرنا پڑے-

اب ديکھنا يہ کہ قذافي کب پنجہ عدالت ميں آتا ہے اور مصر کے ڈکٹيٹر حسني مبارک کي طرح پنجرے ميں بند عوامي انقلابي عدالت ميں پيش ہوتا ہے يا بين الاقوامي عدالت ميں-

اگرچہ قذافي کو بچانے والے بھي کم نہيں ہيں اور جس طرح وہ زين العابدين بن علي کوبچا کر لے گئے، حسني مبارک کو بچانے کي کوشش کي، يمن کے ڈکٹيٹر کو تحفظ فراہم کيا اسي طرح وہ چاہتے ہيں کہ قذافي اور اس کا خاندان بھي محفوظ رہے، البتہ اس سلسلے ميں اس بار سعودي عرب کي جگہ الجزائر کا نام سننے ميں آرہا ہے-

علاقے کي اسلامي بيداري کي تحريکوں کے تعلق سے سعودي عرب کے شاہي خاندان کا کردار انتہائي گھناؤنا اور مشکوک رہا ہے شام کے معاملے ميں تو آل سعود نے امريکہ اور صہيوني رياست کا ساتھ ديا اور ديگر مقامات پر مغرب نواز ڈکٹيٹروں کو بچانے کي کوششوں ميں لگا ہوا ہے-