• صارفین کی تعداد :
  • 809
  • 7/10/2011
  • تاريخ :

6 جولائی، یوم نفاذ فقہ جعفریہ کے موقع پر پیغام

علامہ ساجد نقوی

علامہ ساجد نقوی: اسلامائزیشن کے عمل میں سب کے عقائد ونظریات اور شہری و مذہبی حقوق کا لحاظ رکھا جائے

اسلامائزیشن کے عمل میں تمام مکاتب فکر کے عقائد ونظریات کا احترام اور ان کے شہری و مذہبی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں مذہبی و شہری آزادیاں دی جائیں۔

6 جولائی، یوم نفاذ فقہ جعفریہ کے موقع پر رکن شورائے عالی عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی علامہ سید ساجد علی نقوی کا پیغام

رکن شورائے عالی عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ 6 جولائی 1980  کے کنونشن میں عوام  نے مطالبہ کیا کہ اسلامائزیشن کے عمل میں تمام مکاتب فکر کے عقائد ونظریات کا احترام اور ان کے شہری و مذہبی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں مذہبی و شہری آزادیاں دی جائیں۔ اس مقصد کے لیے عوام نے سیکرٹریٹ کا محاصرہ کیا جس کے نتیجے میں ایک کارکن محمد حسین شاد شہید ہوا۔ اس پس منظر سے واضح ہے کہ یوم نفاذ فقہ جعفریہ فرقہ واریت کی نفی کا دن ہے او راس تاریخی دن بہت سے حقائق منظرعام پر آئے اور عوام کو ان کے ہمہ نوع حقوق کے حصول کا شعور ملا کیونکہ اسلامائزیشن کے طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے عوام نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں آئین کے تقاضوں کے مطابق شہری،مذہبی اور آئینی حقوق فراہم کئے جائیں اور قرآن وسنت اورآئین کو کسی ایک تشریح کا پابند نہ کیا جائے تاکہ اسلام کی مختلف تعبیروں سے استفادہ کرتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔

علامہ ساجد نقوی نے 6 جولائی یوم نفاذ فقہ جعفریہ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ 6 جولائی کادن عوام کے ان جائز حقوق کے حصول کا دن ہے جو آئین نے تمام مکاتب فکر دئیے ہیں۔

 یہ دن وحدت مسلمین کے لیے سنگ میل تھا اور اس دن تمام مسالک اور مکاتب کے درمیان ایک دوسرے کے عقائد ونظریات اور رسوم و عبادات کے احترام کا دائرہ کار واضح اور مشخص کیا گیا ۔ یہ دن قطعاً کسی ایک مسلک کی دوسرے مسلک کے خلاف محاذ آرائی نہیں تھی بلکہ اس وقت اسلامائزیشن کے جاری عمل میں وسعت نظری اختیار کرنے اور آئین کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ تمام فقہوں کو مدنظر رکھ کر سب کے حقوق کی پاسداری کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود تھا لیکن بدقسمتی سے ملک کی پالیسی سازی کے مراکز پر حاوی کوتاہ نظروں نے اس طرف توجہ نہ دی اور غلط رپورٹوں کا سہارا لے کر زور آوری اختیار کی جس کے نتیجے میں ایک فرد بھی شہید ہوا۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ دہشت گردی سے ماضی اور حال میں متاثرہ شیعہ عوام کی ٹارگٹ کلنگ اور منظم قتل عام افسوسناک ہے لیکن اس تمام صورت حال کے باوجود ہم نے اتحاد بین المسلمین اور وحدت امت کے لئے کوششیں جاری رکھیں اورعملی طور پر اتحاد کے لیے بننے والے تمام فورموں اور پلیٹ فارموں میں شریک رہے۔ اب بھی حالات اور اتحاد کا تقاضہ ہے کہ آئین پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو دئیے گئے ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کیا جائے اور ایک دوسرے کے نظریات اور رسوم و عبادات پر اعتراض یا پابندی لگانے کی سوچ کا خاتمہ کیا جائے تاکہ پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام کی راہ ہموار ہوسکے اور لوگوں کی مشکلات دور ہوسکیں۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ تمام مسالک اور مکاتب کے نظریے اور عقیدے کا خیال نہیں رکھا جارہا، تمام مکاتب فکر کو ان کے مذہبی،شہری ،آئینی اور بنیادی حقوق نہیں دئیے جا رہے بلکہ ان کی مذہبی، شہری اور بنیادی انسانی آزادیوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائدکرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ان کی صدائے احتجاج کو روکنے کے لیے ظالمانہ انداز اختیار کئے جا رہے ہیں۔ لہذا6 جولائی کے دن ہمیں تجدید عہد کرنا چاہیے کہ ہم ایک بار پھر نئے حوصلے اور نئے جذبے کے ساتھ اپنے حقوق کی جد وجہدتیز کریں گے۔پاکستان اور پاکستانی عوام کو درپیش سنگین خطرات کے ازالے اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے میدان عمل میں آئیں گے اور ملک و عوام کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں گے۔