• صارفین کی تعداد :
  • 913
  • 6/14/2011
  • تاريخ :

انقلابي تحريک جاري رہے گي

شيخ علي سلمان

بحرين کي اسلامي جمعيت الوفاق کے سيکريٹري جنرل نے عوام کو انقلابي جدوجہد جاري رکھنے کي دعوت ديتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم نمائشي مذاکرات پر راضي نہيں ہونگے اور لوگوں کو دھوکا دينے کي ہر کوشش ناکامي سے دوچار ہوگي"۔

اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کي رپورٹ کے مطابق بحرين کي اسلامي جمعيت الوفاق کے سيکريٹري جنرل شيخ علي سلمان نے اس جماعت کي دعوت پر منعقدہ ہزاروں بحرينيوں کے عظيم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم اس دن کا انتظار کررہے ہيں جب ملک ميں قومي آشتي کا دور دورہ ہوگا اور بحرين کي شيعہ اور سني عوام کو پہنچنے والے تمام نقصانات اور صدمات کا ازالہ ہوگا۔

انھوں نے کہا: گذشتہ تين مہينوں کے جبر و ظلم کے دوران ملک کے پيکر پر گہرے گھاؤ لگے ہوئے ہيں اور عالمي سطح پر اس ضرورت کا احساس کيا گيا ہے کہ بحرين کو سنجيدہ اور حقيقي مذاکرات کي طرف بڑھنا چاہئے جو جمہوريت کے قيام پر منتج ہوں اور عوامي مطالبات کو پورا کرسکيں۔

ياد رہے کہ بحرين ميں انقلاب کے ابتدائي ايک مہينے ميں عظيم ترين اور پانچ لاکھ تک کي تاريخي ريليوں کے انعقاد کے بعد امريکيوں کے اشارے پر اس ملک ميں آل سعود نے فوجي مداخلت کي اور اس وقت بحرين ميں 10 ہزار سعودي گماشتے موجود ہيں۔ جبر و استبداد کے اس آغاز سے لے کر کل تک پورے ملک ميں چھوٹي چھوٹي ريليوں کا سلسلہ جاري رہا ليکن کل وفاق اسلامي کي دعوت پر ايک بار پھر عظيم ريلياں منعقد ہوئيں اور عظيم اجتماع برپا ہوا جس سے شيخ علي سلمان نے خطاب کيا۔ ريلي اور اجتماع کا عنوان "وطن سب کے لئے" رکھا گيا تھا۔ريلي کے ہزاروں شرکاء نے پرامن نعروں کا سلسلہ جاري رکھا۔ شيخ علي سلمان ـ جو القفول کي امام جمعہ بھي ہيں ـ نے اپنے خطاب ميں کہا:  ميں ان والدين پر درود و سلام بھيجتا ہوں جنہوں نے آزادي اور کرامت کي راہ ميں اپنے جگرگوشوں کي قرباني دي؛ ميں ان نوجوانوں کا شکريہ ادا کرتا ہوں جو ميدان اللؤلؤة ميں حاضر ہوئے اور عدل و مساوات کا مطالبہ کيا۔ ان لوگوں کے ساتھ يکجہتي کا اظہار کرتا ہوں جن کو مظاہروں ميں شرکت کي پاداش ميں روزگار سے محروم کيا گيا اور اپنا بے پايان درود و سلام بھيجتا ہوں ان افراد پر جنہوں نے بحريني بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لئے جان کا نذرانہ پيش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کيا۔

انھوں نے کہا:

ميں ضروري سمجھتا ہوں کہ بحرين کي عفيف اور پاکدامن خواتين، علمائے کرام، سياسي شخصيات، قانوندانوں، ڈاکٹروں، اساتذہ، کھلاڑيوں، مؤلفين و مصنفين اور اہل قلم حضرات، روزنامہ نويسوں، شعراء اور پروفيسروں کا شکريہ ادا کروں جو بحرين کي آزادي اور عظمت و کرامت کي راہ ميں اذيتکدوں ميں قيدو بند کي صعوبتيں جھيل رہے ہيں اور مجھے اميد ہے کہ بہت جلد ان کي رہائي عمل ميں آئے گي۔

انھوں نے ملک ميں جائز حقوق کا مطالبہ کرنے والے عوام کو عدل و انصاف، برابري اور مساوات اور جمہوريت کے قيام کے لئے جدوجہد جاري رکھنے کي دعوت ديتے ہوئے کہا: حاليہ مہينوں ميں يہ حقيقت کھل کر سامنے آئي ہے کہ بحرين کے عوام اس ملک کے بہتر مستقبل اور اہليان بحرين کي آبرومندانہ زندگي کے لئے حقيقي اصلاحات کي ضرورت پر يقين رکھتے ہيں۔

انھوں نے کہا:

بحرين کو تين مہينوں پر مشتمل بحراني ايام کا سامنا کرنا پڑا ہے اور يہ تين مہينے بحرين کے دامن پر بدنما داغ اور سياہ دھبہ ہيں۔ يہ ايام بحريں کو سہنے پڑے ہيں اور سب نے ديکھا کہ عالمي انساني حقوق کي تنظيموں نے اس صورت حال اور پرامن شہريوں کو قلع قمع کرنے کے سرکاري اقدامات پر کڑي تنقيد کي اور ملک ميں مذاکرات کا عمل شروع کرنے پر زور ديا۔

انھوں نے کہا: تيں مہينوں کے دوران بحرين کے پيکر پر شديد ترين زخم لگائے گئے اور عوام نے يہ زخم برداشت کئے اور ان مظالم اور ان گہرے زخموں نے جائز حقوق کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد کے لئے عوام کے عزم کو دوبالا کرديا اور ان تيں مہينوں نے ملک کا مستقبل بہتر کرنے کے لئے اصلاحات کي ضرورت کو نماياں کرديا? بحريں کے عوام نے بہترين مقام پر اور بہترين زمانے ميں قربانياں ديں اور احتجاج کيا تا کہ بحرين اور بحرينيوں کے لئے بہتر مستقبل کو يقيني بنايا جاسکے۔ جمعيت الوفاق الاسلامي کے سيکريٹري جنرل نے جمہوريت، مدني حکومت، آئيني بادشاہت اور منتخب پارليمان کے قيام اور منصفانہ اور آزادانہ نيز شفاف انتخابات کے ذريعے شہريوں کے درميان سياسي نمايندگي کے حوالے سے عدل و مساوات کے قيام، عوام کي خواہش اور رائے نيز قومي ارادے کي بنياد پر حکومت کي تشکيل، بنيادي آزاديوں کے احترام اور انساني حقوق کي رعايت پر زور ديا اور کہا: ہم جس حکومت کے قيام کے منتظر ہيں جس ميں تمام شہريوں کو "شہري" کا درجہ ملے نہ کوئي کم ہو اور نہ ہي کوئي زيادہ ہو اور شہريوں کے درميان دين و مذہب، قبيلي اور قوم يا رنگ و نسل کي بنياد کي بنياد پر کسي قسم کا کوئي امتياز روا نہ رکھا جاتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ

بہت سي قوتوں نے علاقے کے اہل سنت کي رائے عامہ کو بحرين کے انقلاب کے خلاف بھڑکانے کي کوشش کي تا کہ بحرين کي عوامي تحريک کا تشخص بدلا جاسکے اور اس پر ايک فرقہ وارانہ تحريک کا ليبل لگايا جاسکے؛ ان قوتوں نے پروپيگنڈا کيا کہ بحرين ميں ايک شيعہ حکومت کے قيام کے لئے تحريک چلي ہے ليکن يہ ايک بہت بڑا جھوٹ ہے کيونکہ ہم شيعہ اور سني کے امتياز کے بغير ملک ميں حقيقي جمہوريت کے خواہاں ہيں اور ہم اپنے بچوں کے لئے خوبصورت مستقبل يقيني بنانا چاہتے ہيں۔

شيخ علي سلمان نے کہا: ہمارے يہ تمام مطالبات قانوني اور جائز مطالبات ہيں جو ہماري اصلاح پسندي کي علامت ہيں اور ان مطالبات کا نہ ايران سي کوئي تعلق ہے اور نہ ہي کسي اور ملک سي اور ہميں يقين ہے کہ ان مطالبات پر عملدرآمد کي صورت ميں بحرين معاشي ميدان ميں ترقي کرے گا اور سماجي لحاظ سے استحکام پائے گا جبکہ بحريني عوام کے خوشحال، آزادي اور آبرومندانہ زندگي کي ضمانت فراہم ہوسکے گي۔ انھوں نے کہا: بحرين تمام بحرينيوں کا ملک ہے اور بحرين کے شيعہ اور سني عوام اپنے ملک سے قلبي محبت کرتے ہيں اور کسي صورت ميں بھي بحرين کو چھوڑ کر کہيں بھي نہيں جائيں گے اور ہم ايسے ملک کے قيام کے لئے چشم براہ ہيں جس ميں شيعہ اور سني عوام کا احترام لازم ہوگا۔

جمعيت الوفاق کے سيکريٹري جنرل نے کہا:

ہماري جماعت سياسي مسائل کے حل کے لئے سنجيدہ اور وسيع البنياد مذاکرات کا خير مقدم کرتي ہے. اور ملک کے تمام مسائل و مشکلات کے بنيادي حل کے خواہاں ہے۔

اسلامي جمعيت الوفاق کے سيکريٹري جنرل نے زور دے کر کہا:

بحرين کي اسلامي جمعيت الوفاق کے سيکريٹري جنرل نے عوام کو انقلابي جدوجہد جاري رکھنے کي دعوت ديتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم نمائشي مذاکرات پر راضي نہيں ہونگے اور لوگوں کو دھوکا دينے کي ہر کوشش ناکامي سے دوچار ہوگي"۔ انھوں نے عوام کو دعوت دي کہ پرامن مظاہرے جاري رکھيں، پرامن دھرنوں کا اہتمام کرتے رہيں کيونکہ يہ ہمارا حق ہے اور ہميں اپنے شہداء کے خون کي حرمت کا تحفظ کرنا ہے، عوامي اور سرکاري املاک کي حفاظت کرنے ہے اور اپنے حقوق ضروري حاصل کرنے ہيں۔

شيخ علي سلمان نے کہا: اگر منصفانہ اور حقيقي مذاکرات يقيني ہوجائيں اور عوام ان مذاکرات کي حمايت کريں تو اس کا سيدھا مطلب يہ ہوگا کہ ملک استحکام کي طرف بڑھ رہا ہے ليکن اگر مذاکرات نمائشي ہوں اور عوام ان مذاکرات کي مخالفت کريں تو ايسي صورت ميں ملک کے اندر موجودہ بحران مزيد گہرا اور مستحکم ہوجائے گا اور ملک کے لئے مطلوبہ استحکام عملي صورت اختيار نہيں کرسکے گا۔