• صارفین کی تعداد :
  • 874
  • 5/15/2011
  • تاريخ :

پاکستان مسلسل امریکی مکاریوں  کا شکار (حصّہ دوّم)

سوالیہ نشان

تقریباً دو گھنٹے تک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر پاکستانی فضاؤں میں اور امریکی افواج کے قدم پاکستان کی سر زمین پر رہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی فضائی افواج اور جاسوسی کے اداروں کو ان کی موجودگی کا پتہ نہیں چل سکا، یہ بات ناقابل یقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار کو اس کارروائی کے بارے میں بتا دیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی جاری کردی گئی تھیں کہ وہ امریکی کارروائی کے دوران کسی قسم کے ردعمل سے گریز کریں گے اور اس کارروائی میں کسی بھی مزاحمت سے اجتناب کریں گے۔

اس کی تصدیق پاکستان کی وزارت خارجہ اور خود وزیراعظم  یوسف رضا گیلانی کے بیان سے ہوئی ہے جو انہوں نے 3 مئی کو دیا اس بیان میں انہوں نے امریکی کارروائی کو جواز فراہم کیا۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ امریکہ نے یہ کارروائی اپنے اس منصوبے کے عین مطابق کی ہے جس کے بارے میں امریکہ نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ اگر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں دنیا کے کسی بھی مقام کے بارے میں پتہ چلا تو اسامہ کو ختم کرنے کے لئے امریکی افواج خود کارروائی کریں گی۔ تاہم بہت سے الفاظ میں پاکستان کے لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ طاقتور امریکہ نے پاکستان کے اعتراضات کے برعکس یہ کارروائی مکمل کی۔ امریکہ اس شخص کے بارے میں جس نے 9/11 کی کارروائی کی منصوبہ بندی کر کے امریکہ کو اس قدر کرب اور اذیت میں مبتلا کیا تھا جب انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے مصدقہ اور قابل عمل اطلاعات دے دی گئیں تو امریکہ کو اپنے مجرم کے خلاف کارروائی سے روکنا ممکن نہ تھا۔

امریکی ذرائع ابلاغ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ معلومات کی روشنی میں یہ یقین کیا گیا کہ متعلقہ مقام پر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے 40 فیصد سے 60 فیصد امکانات ہیں، جو کسی بھی کارروائی کے لئے کافی تھے۔

تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ کسی قسم کی پیچیدگی سے بچنے کے لئے جس مقام پر امریکی کمانڈو نے کارروائی کرنی تھی اس سے متعلق پاکستان کے حکام کو آخری وقت میں اطلاع دے دی گئی ہو لیکن انہوں نے اپنے اصل ہدف کے بارے میں معلومات کو خفیہ ہی رکھا۔ اس طرز عمل سے سی آئی اے کے سربراہ کے اس توہین آمیز بیان کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان کو ہدف کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ ایسا کیا جاتا تو خطرہ تھا کہ کارروائی کے بارے میں معلومات پہلے ہی ظاہر کر دی جاتیں اور مشن ناکام ہو جاتا۔ ایسی جگہ جہاں ہر وقت فوجیوں کی موجودگی نظر آتی ہے وہاں اسامہ کی موجودگی نے پاکستانی فوج کے اداروں سے متعلق امریکیوں کو شکوک و شبہات کا شکار کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستانیوں کو اس مشن سے دور رکھا۔ اس کی ایک اور وجہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان تناؤ بھی تھا ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں آئی ایس آئی کی کوششوں سے مقتولین کے ورثاء دیت قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور اس طرح ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ممکن ہو سکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ آئی ایس آئی کو ایک موقع مل گیا کہ وہ اس واقعے کے پیش نظر سی آئی اے کے جاسوسوں کو پاکستان سے باہر نکالنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالے جو سفارت کاروں کے روپ میں پاکستان میں داخل ہو گئے تھے لیکن ایبٹ آباد میں سی آئی اے کے آپریشن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کو میسر اس فائدے کو انہوں نے غیر موٴثر کردیا ہے اس لئے اس بات سے کسی کو بھی حیران نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں ممالک اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے دنیا کے اس حصے میں پاکستان اور امریکہ کا واضح طور پر الگ الگ ایجنڈا ہے ان میں سے ایک عالمی اور سامراجی ایجنڈے کے ساتھ سپر پاور ہے جسے دنیا کو کنٹرول کرنے کی شدید خواہش ہے جبکہ دوسرا ملک مختلف چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور پھر بھی ایٹمی طاقت ہے۔ اگر امریکی پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے تو اس کی معقول وجوہات ہیں لیکن دوسری جانب پاکستانی بھی امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے اور یہاں اس سے زیادہ معقول وجوہات ہیں۔ یہ عدم اعتماد کی فضا دو طرفہ ہے لیکن پھر بھی زمینی حقائق کی بنا پر انہوں نے دشمن کو کسی دور دراز پہاڑی علاقے میں نہیں بلکہ ایبٹ آباد جیسی جگہ پر پکڑا جو خوبصورت موسم، معیاری اسکولوں اور فوجی تنصیبات کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔

میڈیا کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی اطلاعات (جو بہت کم درست ہوتی ہیں)کے مطابق اس مشن میں 79/امریکی نیوی سیل نے حصہ لیا جو افغانستان کی بگرام ایئربیس سے چار بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ایبٹ آباد آئے اور بن لادن کے کمپاؤنڈ میں 40 منٹ کے آپریشن کے بعد بحفاظت واپس چلے گئے۔ بہر کیف، اگر پاکستانیوں کو اس کا علم تھا تو یہ آپریشن حتمی طور پر خطرے سے خالی تھا کیونکہ پاکستانی سر زمین میں داخل ہونے والے ان امریکی ہیلی کاپٹروں کا نہ تو پاکستانی جنگی جہازوں سے سامنا ہوا اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی فائرنگ ہوئی۔ ایک اور وجہ جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ ہماری فوج کا بن لادن کے کمپاؤنڈ میں امریکیوں کے جانے کے فوراً بعد داخل ہونا ہے۔

ایبٹ آباد کے کامیاب آپریشن پر امریکیوں کا جشن منانا قابل فہم ہے اگرچہ بن لادن کو مارنے کا مطلب القاعدہ کی آخری شکست یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خاتمہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں قائم اتحادی افواج کی فتح کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس اپنے کمانڈروں کی تعریف کرنے کی کئی وجوہات ہیں جنہوں نے اطلاعات کے مطابق کمپاؤنڈ پر حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کے تین ساتھیوں سمیت انہیں قتل کر دیا اور ان کی لاشیں اپنے ساتھ لے گئے لیکن اس مشن کو ایک عظیم کارنامہ کہنا بعید از فہم نظر آتا ہے کیونکہ اسلحے سے لیس 79/امریکی کمانڈوز نے آخر میں غیر مسلح بن لادن اور دیگر تین آدمیوں کو قتل کردیا جو اپنی نیند میں بے خبر سو رہے تھے جبکہ دیگر افراد میں خواتین اور بچے شامل تھے اور ان کے پاس کسی قسم کے ہتھیار یا خود کش جیکٹس نہیں ملیں ۔ علاوہ ازیں ایک خاتون کو مار دینا اور دوسری خاتون کو زخمی کرنا کسی بھی طرح سے بہادری کی بات نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ اسامہ کو زندہ کیوں نہیں پکڑا گیا؟؟

سابق صدر جارج ڈبلیو بش اسے زندہ یا مردہ گرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ نے انہیں قیدی نہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسامہ کی لاش کو سمندر برد بھی کر دیا تاکہ ان کی قبرپر کوئی مزار تعمیر نہ ہو سکے۔

 اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کے ایک جانب کھڑے ہونے سے امریکیوں کا کام آسان ہوگیا، پاکستانی حکومت اور فوج کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ ایبٹ آباد کمپاؤنڈ پر ہونے والے حملے کے متعلق عدم واقفیت کا اظہار کریں اور اب انہیں تنقید کا سامنا ہے کیونکہ امریکی ہیلی کاپٹروں کو روکنے کی کوئی بھی کوشش ان کے ساتھ جنگ کا باعث بن سکتی ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر پاکستان اپنے قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے مسئلے کو بھی حل کرانے سے قاصر ہے۔

شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان