• صارفین کی تعداد :
  • 688
  • 2/28/2011
  • تاريخ :

انقلاب سعودی سرحدیں بھی پار کرگیا

سعودی عرب

آج یہ تحریک منطقةالشرقیہ تک محدود ہے تو پرسون  یہ سعودی عرب کے دوسرے علاقوں میں بھی پہنچ سکتی ہے کیونکہ شخصی حکمرانی تمام افراد ملت کی توہین ہے اور شخصی حکمران ملت کے تمام افراد کے حقوق پامال کرتے ہیں، ان کی دولت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور انہیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کرتے ہیں۔

ابنا کی رپورٹ کے مطابق، پرسون  بروز ہفتہ، سعودی عرب کے تیل کی دولت سے مالامال منطقةالشرقیہ ـ ـ جو بحرین کے پڑوس میں واقع ہے ـ ـ کے عوام سڑکوں پر آئے اور اپنے ملک پر مسلط استبداد و آمریت کے خلاف احتجاج کیا انھوں نے طویل عرصے سے مسلط شخصی حکومت کے خلاف پرامن احتجاج کیا۔

مظاہرین نے گذشتہ برسوں کے دوران بغیر مقدمہ چلائے سینکڑوں شیعہ قیدیوں کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں اور نظام حکومت میں تبدیلی، عوام کے حقوق کی پاسداری، اور بے گناہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔

قبل ازاں جمعرات کے روز بھی قطیف کے ہزاروں شیعیان اہل بیت (ع) نے قطیف صوبے کے شہر العوامیہ میں مظاہرہ کرکے اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد حکومت نے کئی قیدیوں کو رہا کردیا تھا۔

سعودی بادشاہ نی مراکش میں آرام کرنے کے بعد وطن واپس آتے ہی اربوں ریال خرچ کرکے عوامی انقلاب سے اپنے خوف کا بھرپور اظہار کیا لیکن لگتا ہے کہ عوام بادشاہ اور ان کے افراد خاندان کی مانند رشوت لے کر خاموش نہیں رہتے بلکہ انھوں نے جو حکومت سے لیا یہ تو ان کا اپنا حق تھا اور یہ اس مال و دولت کا عشر عشیر بھی نہ تھا جو شاہی خاندان کے سینکڑوں افراد کے ہزاروں اکاؤنٹس میں سینکڑوں ارب ڈالرز، سونے، جواہرات اور بیرون ملک جائداد کی صورت میں موجود ہے۔ عوام تو شاہی خاندان کی دولت کو بھی بجا طور پر اپنا مال سمجھتے ہیں جو شاہی خاندان نے لوٹ لیا ہے۔

بہر صورت کل کے مظاہروں اور دھرنوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام بیمار و لاچار عبداللہ کی طرف سے مراعات سے مطمئن نہیں ہوئے بلکہ وہ تو اپنا حق مانگ رہے ہیں اور اگر آج یہ تحریک منطقةالشرقیہ تک محدود ہے تو کل یہ سعودی عرب کے دوسرے علاقوں میں بھی پہنچ سکتی ہے کیونکہ شخصی حکمرانی تمام افراد ملت کی توہین ہے اور شخصی حکمران ملت کے تمام افراد کے حقوق پامال کرتے ہیں، ان کی دولت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور انہیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کرتے ہیں۔

بادشاہ نے مراعات دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "مراعات کی تقسیم میں شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن جہاں اہل تشیع نے جمہوریت اور انسانی و فردی و سماجی اصلاحات کے سامنے بادشاہ کی دی گئی مراعات کو بالکل ناکافی گردانا ہے اہل تسنن کو بھی معلوم ہے کہ بادشاہ در حقیقت اپنے خاندان کی حکمرانی کو بچانے کی کوشش کررہی ہے ورنہ ان کا دل کبھی بھی عوام کے لئے نہیں تڑپا اور نہیں تڑپے گا۔

سعودی عرب کی مجموعی 2 کروڑ آبادی میں سے 30 لاکھ افراد شیعہ ہیں۔