• صارفین کی تعداد :
  • 1068
  • 5/14/2012
  • تاريخ :

 کيا آج بحرين سعودي عرب کا چودہواں صوبہ بن رہا ہے؟

آج خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے سربراہان سعودی دارالحکومت ریاض میں اکٹھے ہورہے ہیں اور وہ بظاہر تعاون کونسل کو اتحاد اور کنفیڈریشن میں تبدیل کی سعودی تجویز پر غور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عرب ریاستوں سے منظوری لی جارہی ہے کہ بحرین کو سعودی عرب کے حوالے کیا جائے

آج خليج فارس کي عرب رياستوں کے سربراہان سعودي دارالحکومت رياض ميں اکٹھے ہورہے ہيں اور وہ بظاہر تعاون کونسل کو اتحاد اور کنفيڈريشن ميں تبديل کي سعودي تجويز پر غور کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ عرب رياستوں سے منظوري لي جارہي ہے کہ بحرين کو سعودي عرب کے حوالے کيا جائے

اہل البيت (ع) نيوز ايجنسي ـ ابنا ـ کي رپورٹ کے مطابق آج آل سعود کے دارالحکومت رياض ميں خليج فارس کي عرب رياستوں کے مطلق العنان حکمرانوں کا اجلاس بظاہرخليج فارس تعاون کونسل کو اتحاد ميں تبديل کرنے کي سعودي تجويز پر بحث کرنے کي غرض سے، ہورہا ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ يہ اجلاس بحرين کو آل سعود کے حوالے کرنے کي نيت سے منعقد ہورہا ہے- مبصرين کا کہنا ہے کہ آل سعود اور آل خليفہ کي يہ سازش اس حقيقت کا اعتراف ہے کہ يہ دو خاندان اور خليج فارس تعاون کونسل کي رکن رياستوں کي تمامتر کوششيں ناکام اور بحرينيوں کي انقلابي تحريک کامياب ہوچکي ہے اور آل خليفہ اس حقيقت کا ادراک کرتے ہوئے مزيد ذلت کو طوق گردن بنا کر اس بار بادشاہي خاندان کي بجائے آل سعود کي طرف سے والي بحرين بننے کے لئے بھي تيار ہے-  وہ اتحاد کے نام پر بحرين کا سعودي عرب سے الحاق چاہتے ہيں ليکن انہيں اس سلسلے ميں عرب رياستوںکي منظوري بھي چاہئے اور بعض لوگوں کا خيال ہے کہ وہ آج سعودي عرب سے بحرين کے الحاق سے اتفاق کرليں گے اور آل سعود و اور آل خليفہ کوبھي يہي توقع ہے ليکن کچھ حقائق ايسے بھي ہيں جنہيں نظر انداز کرنا، حماقت ہے-بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ خليج فارس کي رياستوں کو اپني پڑي ہے اور وہ حتي اتحاد کي سعودي تجويز تک کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہيں چہ جائےکہ وہ سعودي عرب سے بحرين کے باقاعدہ الحاق کي تجويز سے اتفاق کرليں جبکہ قطر جيسي حکومتوں کے ہاں آل سعود کي حکومت کا دور گذر چکا ہے اور وہ پرائے زمانے ميں جي رہے ہيں چنانچہ ان کي اس طرح کي کوئي بھي تجويز قابل قبول نہيں ہے-به گزارش خبرگزاري اهل‏بيت(ع) ـ ابنا ـ در حالي که امروز نشست سرنوشت‏سازي درباره توطئه خطرناک دريں اثناء بحرين کي سب سے بڑي سياسي جماعت جمعيۃ الوفاق الاسلامي الوطني کے سربراہ شيخ علي سلمان نے کہا ہے کہ سعودي عرب کے ساتھ فيڈريشن يا حتي کنفيڈريشن کي تشکيل کا مطلب سعود عرب کے ساتھ بحرين کے الحاق ہي ہے اور ہم اس منصوبے کے سخت خلاف ہيں اور آل خليفہ سے ہمارا مطالبہ يہ ہے کہ وہ عوامي مطالبات کي طرف توجہ دے؛ آل خليفہ حکومت عوامي مطالبے کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرکے در حقيقت قوم کو تشدد کي راہ پر ڈال رہي ہے؛ يہ پاليسي احمقانہ ہے اور حکومت آل خۂيفہ تمام جرائم کي ذمہ دار ہے- انھوں نے کہا: پارليمنٹ کے انتخابات عوام کي شرکت کے بغير منعقد ہوئے اور11 فيصد بيروني شہريوں نے موجودہ پارليمان کو منتخب کيا ہے چنانچہ نہ صرف مطلق العنان خليفي حکومت بلکہ پارليماني نمائندوں تک کو بحرين کے بارے ميں کوئي فيصلہ دينے کا حق حاصل نہيں ہے اور حکومت اور پارليمان کا کوئي بھي اقدام غير قانوني ہے-مبصرين کا خيال ہے کہ آل خليفہ حکومت عملا ختم ہوچکي ہے چنانچہ اب آل خليفہ کے بادشاہ بادشاہت کي جگہ بحرين کے گورنر کي حد تک تنزل اختيار کرنے کے لئے بھي تيار ہے اور آل سعود کے ساتھ الحاق کا فيصلہ درحقيقت آل خليفہ خاندان نيز اس کے سعودي حاميوں کي شکست اور بحرين کے مظلوم عوام کے انقلاب کے لئے بہت بڑي کاميابي ہے- بہرحال اب آل سعود ايک ملک کي سرپرستي سنبھالنے کي کوشش کررہے ہيں جبکہ وہ خود بھي امريکہ اور يہودي رياست کے زير سرپرستي حکومت کررہے ہيں-بہرحال آج خليج فارس کي عرب رياستوں کے سربراہان سعودي دارالحکومت رياض ميں اکٹھے ہورہے ہيں اور وہ بظاہر تعاون کونسل کو اتحاد اور کنفيڈريشن ميں تبديل کي سعودي تجويز پر غور کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ عرب رياستوں سے منظوري لي جارہي ہے کہ بحرين کو سعودي عرب کے حوالے کيا جائے گوکہ ايسا ہونے کي صورت ميں دوسري عرب رياستوں کو بھي اسي طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور کہا جارہا ہے کہ بحرين کا الحاق اس قصے کا آغاز ہے جس کا اختتام تمام رياستوں کو ہڑپ کرنے پر ہي ہوگا چنانچہ انہيں شديد خدشات لاحق ہيں-