• صارفین کی تعداد :
  • 871
  • 12/25/2010
  • تاريخ :

گرفتار ہونے والے شیعیان اہل بیت (ع) کی تعداد 50 تک پہنچ گئی ہے

وہابی

مدینہ منورہ کی شیعیان اہل بیت (ع) کی گرفتاریاں جاری ہیں اورکئی راتوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے دوران انتہاپسند وہابیوں نے کثیر تعداد میں اہل تشیع کو پابند سلاسل کر دیا ہے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق مدینہ منورہ میں گذشتہ ہفتے کی شب سعودی سیکورٹی والوں نے متعدد شیعہ باشندوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کیا جن کی تعداد اب 50 تک پہنچ گئی ہے۔

یہ گذشتہ بدھ کے روز کا واقعہ ہے جب مدینہ منورہ کے نواح میں العصبہ نامی قصبے کے سینکڑوں انتہاپسند وہابیوں نے قریبی قصبے "قبا" میں اہل تشیع کو عاشورا کے جلسے جلوسوں میں خلل ڈالنے کی غرض سے اس علاقے پر ہلہ بول دیا اور پہنچتے ہی ڈنڈوں اور سنگ و خشت سے عزاداران سیدالشہداء نواسۂ رسول (ص) امام حسین (ع) پر حملہ آور ہوئے۔ جب وہابیوں نے حملہ کیا تو پولیس کی بھاری نفری موجود تھی اور کسی بھی حملے کا راستہ روکنے کے لئے ہر قسم کے وسائل بھی موجود تھے تاہم سرکاری فورسز نے گویا پیشگی ہدایات کے مطابق غیر جانبدار تماشائیوں کا کردار ادا کیا اور وہابی درندوں کو فری ہینڈ دیا۔

لڑائی ہوچکی اور وہابیوں نے اپنے ہتھیار استعمال کئے اور جب ڈنڈے بھی ختم ہوئے اور درندے بھی تھک گئے تو وہابی پولیس نے مداخلت کا فیصلہ کیا اور مداخلت یوں کی کہ

"38 شیعہ عزادار اور دس سے پندرہ تک حملہ آور گرفتار ہوکر جیلوں میں محبوس کئے گئے!!!؟"

شیعہ افراد کو بظاہر وہابیوں کے ڈنڈوں سے بچنے اور ان کے ڈنڈے چھین کر اپنا دفاع کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا!

اب اتنے سارے شبعہ گرفتار ہیں اور وہابی دین کے پیروکار حکمرانوں نے حملے کا نشانہ بننے والوں کو دھمکی دی ہے کہ "اگر انھوں نے دوبارہ ایسا اقدام کیا تو انہیں زیادہ سنگین سرکاری برتاؤ کا سامنا کرنا پڑے گا" مگر دهمکی دیتے ہوئے وضاحت نہیں کی گئی که اگر انھوں دوبارہ کون سا عمل انجام دیا تو انہیں اس سے بھی سخت سرکاری رویئے کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی دھمکی کا مطلب یہ تھا کہ "اگر اس کے بعد انھوں نے وہابی حملہ آوروں کی مزاحمت کی یا ان کے ڈنڈوں اور ہتھیاروں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی تو ..." بالکل غزہ میں اسرائیلوں کے طرز سلوک کی زندہ مثال جہاں وہ اگر فاسفورس بم اور ممنوعہ ہتھیار استعمال کریں تو یہ معمول کی بات ہے لیکن اگر فلسطینی مسلمان صہیونیوں کو دیسی ساختہ بموں کا نشانہ بنائیں تو نہ صرف صہیونی ریاست چیخنا چلانا شروع کردیتی ہے بلکہ امریکی، یورپی حکمران اور اقوام متحده کے سیکریٹری جنرل تک کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ قلعہ بند مسلمانوں کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔

یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے اور نہتے پیروان اہل بیت (ع) کو مزاحمت کے جرم میں دھمکی دینے والی سعودی حکومت کی جانب سے حملہ آوروں کو نہ تو دھمکی دی گئی ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ کیا گرفتار درندے اب بھی جیل میں ہیں یا انہیں چپکے سے رہا کیا گیا ہے؟

سوال یہ ہے کہ دنیائے وہابیت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے اتنی خائف کیوں ہے جبکہ دنیا کی شیطانی طاقتیں بھی عزاداری کو اصل راستے سے منحرف کرنے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کررہی ہیں؟ یہ عزاداری آخر وہابیت، صہیونیت اور استعماریت کے لئے یکسان طور پر باعث تشویش کیوں ہے؟ کیا وہ اب بھی یزید کی رسوائی سے ڈرتے ہیں یا پھر اسلام کے احیاء اور مسلمانوں کی بیداری سے:

انسان کو بیدار کو تو ہو لینے دو

ہرقوم پکارےگی ہمارےہیں حسین

اور میرے خیال میں یہی وہابیت، صہیونیت اور استعماریت کے خوف کا سبب ہے اور اسی بنا پر عزاداران حسین (ع) کو نشانہ بنانا استعمار اور اس کے چیلوں کی روایت میں تبدیل ہوگیا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ محرم کا چاند طلوع ہوتا ہے تو جہاں شیعیان عالََم امام حسین (ع) کی عزاداری کے لئے تیاری کرنا شروع کردیتے ہیں وہاں صہیونیت اور استعمار سے وابستہ وہابی، عزاداروں کو نشانہ بنانے اور ان کا خون بہانے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

لیکن۔۔۔۔ حسینیت عالمگیر ہوکر رہے گی ۔۔۔ اور یہ بھی وجہ تشویش ہے ان کے لئے۔