• صارفین کی تعداد :
  • 2116
  • 12/25/2010
  • تاريخ :

شیعہ مسافرین پر دہشت گردوں کا حملہ، 9 افراد زخمی

پارا چنار

کرم ایجنسی پاراچنار میں لوئر کرم کے علاقے چپری گاؤں میں طالبان دہشت گردوں نے ایک مسافر قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں 9 شیعہ مسافر زخمی ہو گئے ہیں۔

کرم ایجنسی پاراچنار میں لوئر کرم کے علاقے چپری گاؤں میں طالبان دہشت گردوں نے ایک مسافر قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں 9 شیعہ مسافر زخمی ہو گئے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ایک طویل عرصے کے بعد کرم ایجنسی کے ایف سے کمانڈر کرنل توصیف کے احکامات کے مطابق بدھ کے روز ٹل پاراچنار سڑک کے محاصرے کی بندش کے خاتمے کے اعلان کے بعد شیعہ مسافرین نے لوئر کرم کے گاؤں چبری سے سفر کیا جس پر طالبان دہشت گردوں نے بھاری اسلحہ سے حملہ کر دیا جس کے سبب 9 شیعہ افراد شدید زخمی ہو گئے ۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ قافلے کو تیس کلومیٹر راستے میں سیکورٹی فراہم کی گئی جو کہ ٹل ہنگو کے مقام تک تھی لیکن جب قافلہ لوئر کرم کے گاؤں چپری کی چیک پوسٹ پر پہنچا تو طالبان دہشت گردوں نے قافلے پر حملہ کر دیا۔

واضح رہے کہ حملے کے دوران بس ڈرائیور نے بس کو تیزی سے چلاتے ہوئے حملے سے آگے نکال لیا جس کے سبب کئی قیمتی جانیں بچ گئیں تاہم طالبان دہشت گردوں کے حملے کی زد میں آ کر نو شیعہ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

خاص بات:

عینی شاہدین نے مزید بتایا ہے کہ جب طالبان دہشت گردوں نے مسافر قافلے پر حملہ کیا تو حفاظت پر مأمور سیکورٹی اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے اور طالبان دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی جوابی کاروائی سے گریز کیا جوکہ کرم ایجنسی کی انتظامیہ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دو ہفتے قبل آئی ایس پی آر نے اخبارات میں اعلان کیا تھا کہ ٹل پاراچنار روڈ سفر کے لئے محفوط ہے اور عوام سفر کر سکتے ہیں تاہم گذشتہ روز ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی نے حکومتی اور فوجی دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔

بشکریہ از شیعیت نیوز

زیادہ خاص بات:

حکومت ـ طالبان ـ پاراچنار کے عمائدین کے سہ طرفہ مذاکرات عرصے سے اسلام آباد میں جاری ہیں "گو کہ جن طالبان کو حکومت نے مذاکرات کے لئے شیعہ عمائدین کے روبرو بٹھایا ہے وہ "اچھے طالبان Good Taliban یا Good Terrorists"" کے زمرے میں آتے ہیں اور حکومت شیعہ عمائدین کو اس بات کا قائل کرنا چاہتی ہے کہ وہ ان "اچھے طالبان کو افغانستان آنے جانے کے لئے راستہ دے دیں تا کہ وہ افغانستان جایا کریں اور وہاں افغانستان میں اپنے دوستانہ اقدامات کے بعد واپس آتے ہوئے بھی امن و امان سے اس علاقے سے گذر سکیں"۔ کہا جاتا ہے کہ ان طالبان میں جلال الدین حقانی کے نمائندے بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں پاراچنار کے علاقے شلوزان پر حملہ کر رکھا تھا اور اس علاقے میں ـ حکومت پاکستان کی مرضی کے بغیر ہرگز نہیں! ـ اپنا اڈا قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ یوں کابل تک بھی رسائی حاصل کرسکیں لیکن اس جنگ میں عورتوں اور بچوں سمیت تقریبا 80 افراد کی قربانی دے کر علاقے کے شیعہ قبائل نے ان کی یہ بھوندی سازش ناکام بنادی۔

طالبان کی شکست کے دوسرے روز سے ہی مذاکرات کے مختلف ادوار کا سلسلہ شروع ہوا لیکن جن لوگوں کو پاراچنار سے شیعہ عمائدین کے طور پر بلایا گیا ہے ـ ان کی طرف سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی ـ علاقے کے عوام کو اندھیرے میں رکھا جارہا ہے اور کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اصل ایجنڈا کیا ہے یا ایجنڈے کی تفصیلات کیا ہیں تا ہم یہ بات طے ہے کہ طالبان کو پاراچنار کے راستے سے افغانستان تک جانے کا موضوع قطعی طور پر مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

یعنی یہ کہ پاراچنار میں امن و سلامتی کے قیام اور محاصرے کے خاتمے کو اس بات سے مشروط کیا گیا ہے کہ "پاراچنار کے شیعہ قبائل اس بات کی ضمانت فراہم کریں کہ وہ طالبان کو افغانستان میں گھسنے کے لئے راستہ دیں گے" مگر حکومت یہ مطالبہ کرکے یہ بات بھی زور دے کر کہہ رہی ہے کہ "پاراچنار سے ٹل کا راستہ کھول دیا جائے گا لیکن حکومت اس راستے میں شیعہ مسافرین کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے گی"۔

دریں اثناء آئی ایس پی آر کی بات بھی قابل غور ہے جس نے شاید ان ہی مذاکرات یا متعلقہ فیصلہ جات کے بعد ہی اعلان کیا تھا کہ "ٹل پاراچنار روڈ سفر کے لئے محفوط ہے اور عوام سفر کر سکتے ہیں"!

شاید فوج کا یہ اعلان ایمانداری پر مبنی ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ راستہ کھل جائے اور ساتھ ہی طالبان کو افغانستان آنے جانے کا راستہ مل جائے تو یہ امریکہ اور نیٹو کے لئے زیادہ خوشایند بات نہیں ہوسکتی لہذا راستہ کھلنے سے پہلے ہی امن و امان کے قیام کی آرزو ایک بار پھر برباد ہوگئی۔

اب سوال یہ ہے کہ چپری گاؤں میں شیعہ مسافروں پر حملہ کس نے کرایا؟ یا یوں پوچھتے ہیں کہ کونسے طالبان نے اس مذموم اقدام کا ارتکاب کیا ہے؟ پاکستان مخالف طالبان نے؟ پاکستان فرینڈلی طالبان نے" یا پھر امریکا و نیٹو فرینڈلی طالبان نے؟

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اس سوال کو بھی جواب دینا پڑے گا کہ پاراچنار ـ ٹل روڈ کھلنے سے فائدہ کس کو تھا اور نقصان کس کو؟ اور پھر دیکھنا پڑے گا کہ یہ حملہ طالبان کے کس ٹولے نے انجام دیا ہے؟

قارئین کو اتنے سارے طالبان گروپوں کے نام سن کر پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ طالبان کے اس سے کہیں زیادہ گروپ ہیں جن میں انڈیا فرینڈلی طالبان بھی پائے جاتے ہیں جیسا کہ کسی زمانے میں حکومت نے یہ بات بیت اللہ محسود اور سوات کے طالبان کے بارے میں کہی تھی کہ انہیں کابل میں بھارتی سفارتخانے سے امداد ملتی ہے اور پرو اسرائیل طالبان بھی ہیں جیسا کہ طالبان کی قید سے کچھ عرصہ قبل بازیاب ہونے والے ایرانی سفارتکار کو جن طالبان نے اغوا کیا تھا ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اسرائیل سے وابستہ طالبان تھے اور پھر کالعدم ڈیکلئر ہونے والے پاکستان کے تمام تمام تشدد پسند گروپوں نے بھی اپنے اپنے طالبان گروپ تشکیل دیئے ہیں۔

یاد رہے کہ جب بھی حکومت طالبان اور کرم ایجنسی کے عمائدین کے درمیان کوئی معاہدہ طے کراتی ہے چپری گاؤں یا ٹل کی طرف جاتے ہوئے تھوڑے فاصلے پر واقع "توت کَس" یا ایجنسی ہیڈ کوارٹر یعنی پاراچنار کی طرف جاتے ہوئے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع "تور غر" یا پھر "اوچت نامی" گاؤں میں شیعہ مسافرین پر حملہ کیا جاتا ہے اور مسافرین کی حفاظت پر مأمور سیکورٹی فورسز دیکھتی ہی رہتی ہیں تاہم شیعہ مظلومین کو جانی و مالی نقصان بھی پہنچتا ہے اور معاہدے کی دہجیاں بھی اڑ جاتی ہیں۔