• صارفین کی تعداد :
  • 1171
  • 11/3/2010
  • تاريخ :

چار نومبر عالمی استکبار سے مقابلہ کا قومی دن

چارنومبر عالمی استکبار سے مقابلہ کا قومی دن  چارنومبر عالمی استکبار سے مقابلہ کا قومی دن

چارنومبر اسلامی انقلاب کی تاريخ میں عالمی استکبار سے مقابلہ کا قومی دن ہے یہ دن اسلامی انقلاب سے متعلق تین اہم مناسبتوں کےتحت ملت اسلامیہ کے درمیان ایک یادگار دن قراردیا گیا ہے ۔ یہ دن اسلامی جمہوریۂ ایران کے مؤسس و رہنما حضرت امام خمینی (رح) کی ہجرت کا دن ہے ، یہ دن پہلوی جبر و استبداد کے خلاف ایرانی اسکولوں اور کالجوں کے بہت سے انقلابی بچوں کی سر فروشی اور شہادت کا دن ہے اور یہی دن تہران میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے انقلابی جوانوں کے ہاتھوں ،امریکہ کے سفارتی جاسوسی کے اڈے کے تسخیر کئے جانے کا دن ہے ۔ 4 نومبر سنہ 1964 ، سنہ 1978 اور سنہ 1979 کو مختلف برسوں میں ایک ہی دن رونما ہونے والے یہ تین تاریخی واقعات ، عالمی استکبار ، شہنشاہی استبداد اور بین الاقوامی سامراجیت کے تابوت میں ٹھوکی جانے والی انقلابی کیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایران کے انقلاب آفریں مسلمان اور فرض شناس قوم ان تاریخوں سے وابستہ تلخ و شیریں یادوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔                                

رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کم از کم دو دہائی قبل سے ہی اپنی طاغوت شکن تقریری اورتحریری جنگ شروع کردی تھی اور چونکہ آپ کی حق آفریں تکبیروں کی گونج سے پہلوی شہنشاہیت اوراس کی پشتپناہ  عالمی سامراجیت اورصیہونی شیطنت کے تمام علاقائی اور بین الاقوامی ایوانوں میں زلزلہ آنا شروع ہوگیا تھا واشنگٹن کے وھائٹ ہاؤس میں بھی ایک کھلبلی پیدا ہوگئی تھی ،امریکی سامراج کے سب سے محکم ومضبوط قلعہ کے اندر مرجعیت کی سطح پرفائز ایک حق آگاہ روحانی رہنما کی زبان سے سیاسی ،اقتصادی ، ثقافتی اور معاشرتی استحصال کے خلاف بیباک نعروں نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا ملت ایران امام خمینی (رح) کے ہرنعرے کا نعرۂ تکبیر اور نعرۂ حیدری کے ساتھ استقبال کررہی تھی ۔یہ چیز امریکہ اوراس کی پٹھو پہلوی شہنشاہیت برداشت نہ کرسکی اورامریکہ کے حکم پر طاغوتی بادشاہت نے ملت ایران کے دینی و سیاسی پیشوا کو 4 نومبر سنہ 1964 کو جلا وطن کردیا ،اور خاندان رسول (ص) کے ایک مرد مجاہد کو ایک بار پھر اپنے وطن سے تاریخ ساز ہجرت اختیار کرنا پڑی جو 15 سال بعد ولایت فقیہ پر استوار ایک مستحکم اسلامی حکومت کی برقراری کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔امام خمینی (رح) کی ہجرت کے پورے 14 سال بعد، 4 نومبر سنہ 1978 یعنی 13 آبان سنہ 57 ہجری شمسی کو جبکہ امریکی سامراج کے زیر نظر حکومت کرنے والے پہلوی نظام سلطنت کے خلاف آزادی و خود مختاری کے خواہاں ایرانی مسلمانوں کی انقلابی جد و جہد اپنے پورے اوج پر پہنچ چکی تھی تہران کے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے جوان و نوخیز نہالوں نے تہران یونیورسٹی میں ایک عظیم اجتماع کررکھا تھا اور شاہی سفاکوں کی چیرہ دستیوں کی مذمت کرتے ہوئے امام خمینی (رح) کی قیادت میں اسلامی حکومت کے برقراری کے نعرے لگارہے تھے ۔

چارنومبر

یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا یہاں تک کہ ظہر کے وقت چاروں طرف سے تہران یونیورسٹی کو شاہی ساواکیوں نے گھیرلیا اور یکایک پوری فضا بارود کے مرغولوں میں ڈوب گئی جب دھواں چھٹا تو نگاہیں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں کہ ساٹھ سے زیادہ جوان و نوخیز بچے خاک وخون میں غلطاں شہادت کا خونیں جام نوش کرچکے تھے ۔اسلامی انقلاب کے یہی وہ نونہال تھے جنہوں نے تہران کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کی دیواروں پر ظلم و ناانصافی کے خلاف طاغوت شکن نعرے خود اپنے خون سے اس طرح لکھ دئےتھے کہ ان کا ہر نعرہ ایران کے غیور و مسلمان عوام کا نعرہ بن گیا اور آئینہ احساس و شعور پر پڑے تمام طاغوتی گرد و غبار چھٹ گئے ۔ایران کے ان بہادر جوانوں نے اپنے خونیں انقلاب کے ذریعے تمام مستضعفین عالم کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ اپنے حقوق کی بحالی کے لئے عالمی خونخواروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔4 نومبر سنہ 78 کی یہ قربانیاں ،اسلامی انقلاب کی کامیابی کی ضمانت بن گئیں اور چند جوانوں کے خون نے امریکہ کی پٹھو پہلوی شہنشاہیت کی قاتل و سفاک شمشیروں کو شکست دے دی ملت ایران کے درمیان غیظ و غضب کے وہ شعلے بھڑک اٹھے جس نے جبر و استبداد کی ایک قوی و مستحکم حکومت کو " تاریخی کوڑے دان " میں تبدیل کردیا اور حریت پسند قوموں کے درمیان امریکہ اور اس کی سامراجیت ہمیشہ کے لئے ذلیل و رسوا ہوگئی ۔در اصل ، انسان کی زندگی کا اسکولی دور حساس ترین و حیات آفریں ترین دور کہا جاتا ہے کیونکہ اسی زمانے میں عشق و امید کے تمام غنچے شگوفہ آور ہوتے ہیں اور کمال و ارتقا کے تمام دروازے کھلتے یا بند ہوجاتے ہیں قوموں کے قافلے علم و دانش کے بازاروں سے یا تو آزادی و خود مختاری کے قیمتی موتی چنکر دامن مراد بھر لیتے ہیں اور ایمان و آگہی کے سہارے اپنی اور ملک و قوم کی کشتی پارلگادیتے ہیں یا پھر جذبات و احساسات کی بھول بھلیّوں میں پھنس کر اپنا اور قوم و ملت کا مستقبل تاریک کردیتے ہیں اسی لئے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں 4 نومبر، اسکولی جوانوں کا دن قراردیا گیا ہے تاکہ دین و دانش کے سایہ میں پروان چڑھنے والے اسلامی انقلاب کے فرزند ، اس دن کی قربانیوں کو ہمیشہ یادرکھیں اوراپنے علم و دانش کو " سامراجی بت " بنانے کے بجائے  "تعمیر انسانیت " کا پرچم بنائیں اور ساری دنیا کو آزادی و خود مختاری کا پیغام سناتے رہیں ۔

چارنومبر

 چار نومبر سنہ 1979 کا دن اسلامی انقلاب کی کامیابی و کامرانی کے بعد تہران یونیورسٹی اور کالجوں کے انقلابی جوانوں کے ہاتھوں مجرمانہ سازشوں میں مشغول سفارتی جاسوسی کا امریکی اڈہ تسخیر کئے جانے کے اس عظیم کارنامے کی یاد دلاتاہے جس نے عالمی خونخوار امریکہ کے سر پر غرور کو چکنا چور کردیا ۔یہ کارنامہ اسلامی انقلاب کی تاریخ میں سامراجیت کے خلاف ایک ایسا موڑ لے آیا کہ رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے اس کو " دوسرے انقلاب " سے تعبیر کیا ہے ۔دراصل فروری سنہ 1979 میں ، پہلوی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ایران میں اسلامی بنیادوں پر امریکہ مخالف وہ اسلامی نظام قائم ہوا تھا جس کا وجود مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سامراجی مفادات کے لئے نہایت ہی خطرناک ہوگیا تھا لہذا امریکہ نے تہران میں اپنے سفارت خانے کو اسلامی انقلاب کے خلاف دشمنانہ سازشوں کے ایک گھنونے اڈے میں تبدیل کردیا تھا چنانچہ امام خمینی (رح) کے انقلابی خطوط پر چلنے والے یونیورسٹی کے جوانوں نے بڑی بہادری کے ساتھ جاسوسی کے اس خطرناک اڈے کو تسخیر کرلیا اور دشمنان قوم و ملت کی سازشوں کو ہمیشہ کے لئے نقش برآب کردیا۔رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ نے مسلمان طلبہ کے ہاتھوں جاسوسی کے اس اڈہ کے تسخیر کئے جانے کو عالمی استکبار کی ذلت و رسوائی کی علامت قراردیتے ہوئے بجا طور پر کہا تھا :" مسئلہ ، سفارت یا سفارتی عملے کا نہیں تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ دنیا میں زر ، زور اور فریب پر مبنی ایک بڑا امپیریل پاور ،جو اپنے مقابلے میں تمام قوموں اور ملتوں کی تحقیر پر کمربستہ ہو، قومی قیادتوں کو ذلیل کررہا ہو، قوموں کی پشتپناہی میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کوکسی قدر و قیمت میں شمار نہ کرتا ہو، جب چاہے حکومتوں کا خاتمہ کردے ، جس ملک پر چاہے حملہ کردے ،ایک ایسے امپیریل پاور کو ایک جگہ اس طرح ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑے اور دنیا دیکھے کہ قوت و طاقت ہی سب کچھ نہیں ہے اور عالم فطرت پر صرف مستکبرین کا فیصلہ حکمراں نہیں ہے ۔یہ وہ چیز ہے جس کے گرد و غبار عالمی استکبار کے سرغنہ چہروں سے ابھی تک صاف نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ صاف ہوسکیں گے "۔

چارنومبر

بہرحال ،عصر حاضر کے ایران میں 4 نومبر کو رونما ہونے والے ان تینوں واقعات میں ایک وجہ اشتراک موجود ہے اور اسی وجہ اشتراک کی بنیاد پر اس دن کو عالمی استکبار سے مقابلہ اور پیکار کا دن قراردیا گیا ہے ،امریکہ ایران میں اپنا سامراجی تسلط دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے اور ایران کی اسلامی حکومت 27 ۔ 28 سال سے امریکہ کے خلاف یہ جنگ کامیابی کے ساتھ لڑرہی ہے اور ایرانی جوان آج بھی اس راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ۔آج یہ جنگ پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کے دائرے میں چل رہی ہے امریکہ ایران کا بائیکاٹ کرکے اس کو عالمی سطح پر تنہا کردینے کا خواہشمند ہے لیکن اس میدان میں بھی ملت ایران کے ارادہ بلند اور مستحکم ہیں اور یقینا" امریکہ کو سامراجیت کے خلاف دین و دانش کی اس جنگ میں بھی منہ کی کھانی پڑے گي ۔