• صارفین کی تعداد :
  • 1059
  • 9/21/2010
  • تاريخ :

شلوزان کے علاقے میں شہداء کی تعداد 25 ہوگئی ہے

پارا چنار
اس وقت خیوص نامی گاؤں دہشت گردوں کے محاصرے میں ہے اور دہشت گرد بھاری ہتھیاروں سے اس گاؤں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس پر قبضے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں.

ابنا کی رپورٹ کے مطابق اور تازہ ترین اطلاع کے مطابق خیوص کے گاؤں میں شدید لڑائی ہو رہی ہے جبکہ سرکاری فورسز کی کاروائیاں بھی دہشت گردوں کے فائدے میں جارہی ہیں اور صرف کل رات آٹھ شیعہ مدافعین خیوص کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔

شیعہ مدافعین نے حملہ کرکے دو اہم ٹھکانے ان سے خالی کرادیئے جس میں دسیوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے اور شہداء کی تعداد مجموعی طور پر سات تھی مگر رہائشی علاقوں پر طالبان دہشت گردوں کی گولہ باری سے کئی خواتین اور بچوں کی شہادت واقع ہوئی۔

حکومت اور بعض بظاہر غیر سرکاری ـ اور درحقیقت سرکاری ایجنسیوں کی ترجمانی کرنے والے ـ ذرائع ابلاغ کا اصرار ہے کہ یہ لڑائی پانی کے تنازعے پر شروع ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کو اس علاقے میں امن کے تمام امکانات معدوم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے اور چونکہ کرم ایجنسی ـ لوئر کرم میں دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد ـ بیرونی طور پر طویل المدت محاصرے اور ناکہ بندی کے باوجود، اس وقت پورے ملک کا پرامن ترین علاقہ تصور کیا جاتا ہے، دہشت گردوں نے شلوزان اور پہاڑیوں میں واقع "خیوص" نامی شیعہ گاؤں پر حملے شروع کردیئے ہیں جس کا مقصد اس پورے علاقے کو لڑائی اور جھگڑوں میں دہکیلنا اور مرکزی حکومت کی واحد اطاعت گزار مگر عالمی دہشت گردوں کے مقابلے میں حکومتی مدد سے محروم جنگزدہ اور قلعہ بند قبائلی ایجنسی کے اندرونی امن و امان کو بھی تباہ کیا جاسکے اور مستقبل قریب میں پر امن شیعہ اور سنی قبائل کو امن کے قیام سے بھی دور رکھا جاسکے۔

یہ سطور لکھنے تک علاقے میں شیعہ شہیدوں کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ہلاک کئے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد 24 تک پہنچ گئی ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق جب دہشت گرد شیعہ مدافعین کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتے ہیں تو سرکاری فورسز کے ہیلی کاپٹر دہشت گردوں کی بجائے شیعہ مدافعین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کرتے ہیں اور فورسز رات کے وقت بھی بھاری توپخانے سے شیعہ مورچوں پر حملے کرتے ہیں لیکن کل رات سے سرکاری پشت پناہی کے باعث  دہشت گردوں کی پوزیشن مضبوط نظر آنے لگی ہے تو سرکاری توپخانہ بھی خاموش ہے اور گن شپ ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے بہانے جو ہیلی کاپٹر حکومت پاکستان نے بیرونی ممالک سے حاصل کئے ہیں وہ مرکزی حکومت کے اطاعت گزار اور دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار پاکستانی عوام کو نشانہ بنارہے ہیں لیکن نہ تو سننے والا کان ہے نہ ہی دیکھنے والی آنکھ، اور بلند و بالا پہاڑون میں رہنے والے شیعہ قبائل کی فریاد پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ کر آتی ہے اور وہ خود ہی اس کی صدائے بازگشت سن لیتے ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ بکے ہوئے ہیں اور حق و حقیقت کا اظہار و انعکاس اس زمانے میں کیمیا کی مانند ناپید ہے۔

علاقے کے مکینوں کے مطابق لڑائی کا آغاز ہی مقامی و غیر مقامی دہشت گردوں نے کیا ہے اور سرکاری پالیسی کے تابع ذرائع ابلاغ نے بھی مجبور ہوکر آج ہی اعتراف کرلیا ہے کہ علاقے میں دہشت گردوں نے مداخلت شروع کرلی ہے۔

روزنامہ جنگ نے لکھا ہے کہ دہشت گردوں کی مداخلت سے لڑائی میں تیزی آگئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد پہلے روز سے ہی اس لڑائی میں شریک ہیں اور جو مقامی لوگ ان کو دعوت دے چکے ہیں اور ان کو اپنے گھروں مین بسا رہے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر پرامن ملکی شہریوں کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ بھی تو دہشت گرد ہیں جو ملک کے امن و امان کو تباہ کررہے ہیں اور سرکار پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سرکاری فورسز دہشت گردوں کی پشت پناہی پر کمربستہ نہ ہوتیں تو یہ لڑائی اب تک ختم ہوچکی ہوتی کیونکہ علاقے کے لوگ بہت بہتر انداز میں اپنا دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں گو کہ ان کے پاس نہ تو بھاری ہتھیار ہیں اور نہ ہی سرکاری اور نیٹو یا امریکی فورسز کی جانب سے ان کی مدد کی جارہی ہے جبکہ دہشت گرد جو ہتھیار استعمال کررہے ہیں وہ پاکستانی افواج کے لئے بھی غیر معروف ہیں چنانچہ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دہشت گردوں کو ہمسایہ ملک پر قابض بیرونی افواج کی ہمہ جہت مدد بھی حاصل ہے اور انہیں افغانستان کے راستے سے بیرونی قوتوں سمیت ملکی عملداری کے خلاف بغاوت کرنے والے دہشت گرد ٹولوں سے بھرپور امداد مل رہی ہے جبکہ سرکاری افواج کی نظر کرم بھی جنگ کی شدت میں مؤثر ہے۔

پاراچنار سے 5 میل کے فاصلے پر شلوزان کی حسین وادی واقع ہے جو گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل حملوں کا سامنا کررہا ہے۔ اس گاؤں کی شمالی پہاڑیوں میں منگل قبائل کا بسیرا ہے جو 2007 میں حکومت اور طالبان کے مشترکہ اقدامات کے باوجود پر امن شیعہ باشندوں کی طرف سے کسی حملے کا نشانہ نہیں بنے مگر ان کی طرف سے مسلسل شرارتیں ہوتی رہیں جن میں سے ایک شرارت پانی کی بندش کا مسئلہ تھا جو مسلسل جاری رہا لیکن شیعہ قبائل نے اس کو لڑائی کا بہانہ بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جب بھی ان لوگوں نے اپنے یزیدی اسلاف کی روایت پر چلتے ہوئے پانی بند کیا اہل تشیع نے حکومت کی وساطت سے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔

حال ہی میں مختلف علاقوں کے طالبان دہشت گردوں نے افغانستان جا کر دشوار گذار پہاڑی راستوں سے گذر کر اس ان پہاڑی دیہاتوں کو اپنا مسکن بنالیا ہے اور انھوں نے بھاری ہتھیار بھی اس علاقے میں منتقل کئے ہیں اور یہ دیہات اب عوام  کی سکونت کے مقامات کی بجائے دہشت گردی کے بڑے اڈے میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان دیہاتوں کے پہاڑی باشندوں اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے دہشت گردوں نے مل کر پہاڑی دروں میں کیمپ قائم کئے ہیں اور بعید از قیاس نہیں ہے کہ القاعدہ کے بیرونی و اجنبی دہشت گرد اور ان سے منسلک پاکستانی دہشت گرد ٹولے بھی ـ جو اس وقت طالبان کی شکل میں منظم ہوئے ہیں ـ اس علاقوں میں آئے ہوئے ہوں جس کا ثبوت ان کی جانب سے جدید ہتھیاروں سے شدید گولہ باریاں ہیں جن کا نشانہ شلوزان اور ملحقہ شیعہ علاقے ہیں۔

دو ہفتے قبل اس علاقے میں اس وقت لڑائی کا آغاز ہوا جب مقامی اور غیر مقامی دہشت گردوں نے شلوزان کے اوپر واقع پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کرکے شلوزان کو بھاری ہتھیاروں کا نشانہ بنانے لگے۔

علاقے کے مکینوں کا خیال ہے کہ گویا مرکزی حکومت نے جان کر ان کو گذشتہ ساڑھے تین برسوں سے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے تا کہ یہاں کے عوام بھی مجبور ہوکر دیگر قبائلی علاقوں کے عوام کے نقش قدم پر چلنا شروع کریں اور سرکاری فورسز کو اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کریں تا کہ حکومت کو یہاں بھی فوجی آپریشن کے بہانے عوام کے قتل عام کا موقع مل سکے!!۔

اس وقت شلوزان کی شمالی پہاڑیوں میں طالبان کے مختلف گروپ تعینات ہیں جو شلوزان اور ملحقہ علاقوں پر بھی حملے کررہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد مکانات اور مساجد کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن تکفیری طالبان دہشت گردوں کے جانی نقصان کے صحیح اعداد و شمار کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔

دوسری طرف سے کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل نے حکومت سے ایجنسی میں طویل بد امنی کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھا نے کا مطالبہ کرتی ہوئی فورسز کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔

پاراچنار میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی عمائدین اور علماء نے کہا ہے کہ علاقہ طویل بدامنی کے باعث ہر میدان میں تباہ ہوگیا ہے علاقے کے لوگ مزید بد امنی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔

قبائلی رہنماؤں اور علماء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لئے طویل خاموشی ترک کر کے قدم بڑھائے۔

اپڈیٹ:

تازہ ترین اطلاع کے مطابق شیعہ مجاہدین نے حملہ کرکے تین دیہاتوں کو  دہشت گردوں سے آزاد کرالیا ہے جو درحقیقت ان کے اہم اڈے تھے اور دہشت گردوں نے ان دیہاتوں کو پہلے ہی دہشت گردی کی غرض سے باشندوں سے خالی کرالیا تھا چنانچہ تینوں دیہات بالکل خالی تھے اور ان مین کوئی بھی نہیں تھا.

اس رپورٹ کے مطابق دہشت گرد پسپا ہونے پر مجبور ہوکر عقبی پہاڑیوں کی جانب فرار ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ مفتوحہ دیہات شلوزان کے شیعہ باشندوں کی آبائی جائیداد کا حصہ ہیں جن میں کسی زمانے میں افغانستان سے آئے بعض خاندانوں کو عارضی طور پر بسایا گیا تھا جو بعد میں نہ صرف پہاڑی علاقے کے مالک بن بیٹھے تھے بلکہ اپنے محسنون کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔

اس وقت نرئی نامی صرف ایک گاؤں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہے جو مذکورہ دیہاتوں سے کافی دور ہے جبکہ آج رات واحد شیعہ گاؤں پر بھاگنے والے دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ بدستور باقی ہے۔