• صارفین کی تعداد :
  • 2427
  • 5/12/2010
  • تاريخ :

انتظار اور فطرت (حصّہ دوّم)

امام مھدي(عج)

عالمی مصلح اور اسلامی روایات

ایك ایسی عالمی حكومت كا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار كرے، انسان كو عدل و انصاف كا دلدادہ بنائے، یہ كسی شكست خوردہ ذھنیت كی ایجاد نہیں ھے، بلكہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حكومت كا احساس كرتا ھے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی كی آواز ھے ایك پاكیزہ فطرت كی آرزو ھے۔

بعض لوگوں كا نظریہ ھے كہ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلكہ دوسرے مذاھب سے اس كو اخذ كیا گیا ھے، یا یوں كہا جائے كہ دوسروں نے اس عقیدے كو اسلامی عقائد میں شامل كردیا ھے۔ ان لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی كوئی اصل و اساس نہیں ھے۔ دیكھنا یہ ھے كہ یہ فكر واقعاً ایك غیر اسلامی فكر ھے جو رفتہ رفتہ اسلامی فكر بن گئی ھے؟ یا در اصل یہ ایك خالص اسلامی فكر ھے۔

اس سوال كا جواب كس سے طلب كیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس كا جواب طلب كیا جائے جن كی معلومات اسلامیات كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھیں۔ یہیں سے مصیبت كا آغاز ھوتا ھے كہ ھم دوسروں سے اسلام كے بارے میں معلومات حاصل كریں۔ یہ بالكل ایسا ھی ھے جیسے كوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ كرے جو دریا كے كنارے ھے بلكہ ایك ایسے شخص سے پانی طلب كرے جو دریا سے كوسوں دُور ھے۔

یہ بات بھی درست نہیں ھے كہ مستشرقین كی باتوں كو بالكل كفر و الحاد تصور كیا جائے اور ان كی كوئی بات مانی ھی نہ جائے، بلكہ مقصد صرف یہ ھے كہ "اسلام شناسی" كے بارے میں ان كے افكار كو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ كیا جائے۔ اگر ھم تكنیكی مسائل میں علمائے غرب كا سہارا لیتے ھیں تو اس كا مطلب یہ تو نہیں كہ ھم اسلامی مسائل كے بارے میں بھی ان كے سامنے دستِ سوال دراز كریں۔

ھم علمائے غرب كے افكار كو اسلامیات كے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سكتے كہ ایك تو ان كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھے، جس كی بنا پر ایك صحیح نظریہ قائم كرنے سے قاصر ھیں۔ دوسری وجہ یہ ھے كہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول كو مادی اصولوں كی بنیاد پر پركھنا چاھتے ھیں، ھر چیز میں مادی فائدہ تلاش كرتے ھیں۔ بدیہی بات ھے كہ اگر تمام اسلامی مسائل كو مادیت كی عینك لگا كر دیكھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل كی حقیقت كیا سمجھ میں آئے گی۔

اسلامی روایات كا مطالعہ كرنے كے بعد یہ بات واضح ھوجاتی ھے كہ "انتظار" كا شمار ان مسائل میں ھے جن كی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ھے۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام كی انقلابی مہم كے سلسلے میں روایات اتنی كثرت سے وارد ھوئی ھیں كہ كوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان كے "تواتر" سے انكار نہیں كرسكتا ھے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں كے علماء نے اس سلسلے میں متعدد كتابیں لكھی ھیں اور سب ھی نے ان روایات كے "متواتر" ھونے كا اقرار كیا ھے۔ ھاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات كے سلسلے میں شك و شبہ كا اظھار كیا ھے۔ ان كی تشویش كا سبب روایات نہیں ھیں بلكہ ان كا خیال ھے كہ یہ ایسا مسئلہ ھے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں كیا جاسكتا ھے۔

اس سلسلہ میں اس سوال و جواب كا ذكر مناسب ھوگا جو آج سے چند سال قبل ایك افریقی مسلمان نے مكہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ھے، اس سے كیا تھا۔ یہ بات یاد رھے كہ یہ ارادہ وھابیوں كا ھے اور انھیں كے افكار و نظریات كی ترجمانی كرتا ھے۔ سب كو یہ بات معلوم ھے كہ وھابی اسلام كے بارے میں كس قدر سخت ھیں، اگر یہ لوگ كسی بات كو تسلیم كرلیں تو اس سے اندازہ ھوگا كہ یہ مسئلہ كس قدر اھمیت كا حامل ھے اس میں شبہ كی كوئی گنجائش نہیں ھے۔ اس جواب سے یہ بات بالكل واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت امام مہدی (ع) كا انتظار ایك ایسا مسئلہ ھے جس پر دنیا كے تمام لوگ متفق ھیں، اور كسی كو بھی اس سے انكار نہیں ھے۔ وھابیوں كا اس مسئلہ كو قبول كرلینا اس بات كی زندہ دلیل ھے كہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ھوئی ھیں ان میں كسی قسم كے شك و شبہ كی گنجائش نہیں ھے۔


متعلقہ تحریریں:

صحیفہ مہدیہ