علي عليہ السلام کي متوازي شخصيت (حصّہ دوّم)
يہاں اسمیں سے چند صفتوں کو آپ کے سامنے بيان کرتا ہوں۔
آپ کے اٹل فیصلے اور رحم دلي:
مثال کے طور پر بيک وقت ايک انسان کسي کے ساتھ رحم دلي بھي کرے اور وہيں اور وہيں پر اپنا فیصلہ بھي اٹل رکھے اور قطعاً کسي کو بے جا حق دينے پر راضي نہ ہو يعني رحم دلي اور قاطعيت آپس ميں دو ايسي متضاد صفتيں ہيں جو ايک شخص کے اندر جمع نہيں ہو سکتيں! ليکن حضرت امير المومنين عليہ السلام کے اندر رحم دلي، عطوفت و محبت اپني حد کمال کو پہنچي ہوئي ہے جو ايک عام انسان کے اندر بہت کم نظر آتي ہے مثال کے طور پر فقيروں کو مدد کرنے والے پسماندہ لوگوں کي مشکلات حل کرنے والے آپ کو بہت مليں گے۔
مگر ايک ايسا شخص جو نمبر ١۔ اس کام کو اپني حکومت کے دوران انجام دے، نمبر٢ ۔ اس کا يہ عمل ايک دو دن نہيں ہميشہ کا ہو، نمبر٣۔ تنہا ماّدي مدد تک ہي اس کا يہ عمل محدود نہ رہے بلکہ وہ بنفس نفيس ايسے لوگوں کے گھر جائے، اس بوڑھے کي دلداري کرے، اس نابينا کو دلاسا دے، ان بچوں کے ساتھ بچوں کي طرح کھيلے اس کا دل بہلائے اور اسي کے ساتھ ساتھ ان کي مالي مدد بھي کرے پھر ان سے رخصت ہو يہ فقط امير المومنين عليہ السلام ہي کي ذات ہے اب ذرا بتائيے آپ دنيا کے رحم دل انسانوں ميں اس جيسا کتنوں کو پيش کر سکتے ہيں!؟
حضرت عليہ السلام مہر و محبت عطوفت اور رحم دلي ميں اس طرح سے ديکھائي ديتے ہيں۔ کہ ايک بيوہ جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہيں اس کے گھر جاتے ہيں، تنور روشن کرتے ہيں ان کے لئے روٹياں سينکتے ہيں ان کے لئے کھانا پکاتے ہيں اور اپنے ہاتھوں سے ان يتيم بچوں کو کھانا کھلاتے ہيں يہي نہيں بلکہ اس لئے کہ ان بچوں کے لبوں پر بھي دیگر بچوں کي طرح مسکراہٹ آئے اور وہ بھي کچھ دير کے لئے غم و اندوہ سے باہر نکل سکيں ان کے ساتھ بچوں کي طرح کھيلتے بھي ہيں انہيں اپني پشت پر سوار کرتے ہيں انکے لئے ناقہ(اونٹ) بنتے ہيں اس جھونپڑي ميں انہيں مختلف طريقوں سے سرگرم رکھتے ہيں تا کہ وہ بھي مسکرا سکيں يہ ہے حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي رحم دلي اور محبت و عطوفت کي ايک مثال يہاں تک کہ محبت کا يہ برتاؤ ديکھ کر اس زمانے کے ايک بزرگ کہتے ہيں اس قدر اميرالمومنين يتيموں اور بے سہارا بچوں سے محبت سے پيش آتے اور ان کے منہ ميں شہد ڈالتے اور انہيں پيار کرتے تھے کہ خود ميں تمنا کرنے لگا ’موددتُ ان اکون يتيماً ‘ کاش ميں بھي يتيم ہوتا تاکہ مجھے بھي علي عليہ السلام اسي طرح پيار کرتے! يہ آپ کي محبت ہے۔
اور يہي علي عليہ السلام جنگ نہروان ميں بھي ہيں جب کچھ کج فکر اور متعصب لوگ بے بنياد بہانوں سے آپ کي حکومت کو ختم کر دينا چاہتے ہيں پہلے آپ انہيں نصيحت کرتے ہيں کہ وہ جس کا مطلقاً اثر نہيں ليتے، احتجاج کرتے ہيں مگر اس کا بھي کوئي فائدہ نظر نہيں آتا۔ کسي تيسرے آدمي کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہيں ان کي مالي امداد کرتے ہيں ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ ديتے ہيں مگر ان سب سے کوئي فائدہ نہيں پہنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہيں پھر بھي آپ انہيں نصيحت کرتے ہيں مگر آپ کي يہ نصيحت ان کے لئے بے فائدہ ثابت ہوتي ہے اس وقت پورے شد و مد کے ساتھ پوري قطعيت سے پرچم زمين پر گاڑ کر فرماتے ہيں ! تم ميں سے کل تک جو بھي اس پرچم تلے آجائي گا وہ امان ميں رہے گا اور جو نہيں آيا اس سے ميں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ہزار افراد ميں سے آٹھ ہزار افراد پرچم کے نيچے آگئے اور باوجودي کہ ان لوگوں نے آپ سے دشمني کي ہے، لڑنے ميں بر ابھلا کہا ہے پھر بھي فرماتے ہيں جاؤ تم لوگ يہاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انہيں کوئي اہميت نہيں دي اور انہيں معاف کر ديا، جو دوسرے چار ہزار بچے، فرمايا! اگر تم لڑنے پر تلے ہو تو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے ديکھا وہ لڑنے مرنے پر تيار ہيں فرمايا! ياد رکھو تم چار ہزار ميں سے دس افراد کے علاوہ کوئي باقي نہيں بچے گا ۔ جنگ شروع ہوگئي اس چار ہزار ميں ١٠ لوگ زندہ بچے بقيہ سب کے سب ہلاک ہوگئے، يہ وہي علي عليہ السلام ہيں جب ديکھا مقابلہ ميں بدسرشت و خبيث النفس انسان ہیں تو پھر پوري صلاحيت کے ساتھ ان سے جنگ لڑتے ہيں اور ان کا دندان شکن جواب ديتے ہيں۔
اقتباس از شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علي عليہ السلام حضرت آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي کے مجموعہ خطابات کي روشني ميں
متعلقہ تحریریں:
یوم ولادت حضرت علی علیہ السلام پر قائد انقلاب اسلامی کا ایک خطاب
علی علیہ السلام؛ نومسلم ولندیزي خاتون کی نگاہ میں