• صارفین کی تعداد :
  • 2814
  • 1/25/2010
  • تاريخ :

غسل پر گفتگو ( حصّہ دوّم )

غسل

سوال:     کیا غسل کے لیے کچھ اور شرائط بھی ہیں؟

جواب:      جو شرائط وضو میں ہیں وہ غسل میں بھی ہیں(۱) نیت (۲) پانی کا پاک ہونا۔(۳) پانی کا مباح ہونا (۴) پانی کا مطلق (خالص) ہونا (۵) اور بدن کا نجاست سے پاک ہونا (۶) اعضائے غسل میں ترتیب کا ہونا اگر غسل کرنے والا اپنا غسل خود کرسکتا ہو تو غسل خود کرنا اور پانی کا استعمال شرعی طور پر مضر نہ ہو مثلاً مرض کا ہونا وضو کی گفتگو میں ملاحظہ کیجئے۔

لیکن غسل اوروضوسے دوچیزوں میں اختلاف فرق ہے، آپ ان دو چیزوں پر غور کریں؟

سوال:     وہ دو چیزیں کیا ہیں؟

جواب:       غسل میں یہ شرط نہیں ہے کہ ہر عضو کو وضو کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف دھویاجائے۔

وضو کی طرح غسل میں موالات شرط نہیں ہے پس آپ سر اور گردن دھونے کے بعد اپنے باقی جسم کو کچھ دیر بعد دھو سکتے ہیں، چاہے آپ کا سر خشک ہی کیوں نہ ہوجائے،جیسا کہ آپ وضو میں اپنے چہرہ کو دھو ئیں گے تو جب تم بھنووں کے بالوں پر پہنچیں گے تو صرف ان کا اوپر والا حصہ دھوئیں اور جب آپ اپنے سرکا مسح کریں تو صرف بالوں کے اوپر والے حصہ پر مسح کریں جلد تک پانی کا پہنچنا ضروری نہیں ہے لیکن غسل میں واجب ہے کہ پانی کو سرکی کھال تک پہنچایا جائے اسی طرح دونوں بھنوؤں، مونچھ اور ڈاڑھی کے بالوں میں بھی یہی حکم ہے۔

سوال:     اس کے بعد کیا حکم ہے؟

جواب:      غسل جنابت کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال:     اس کے معنی یہ ہیں کہ جب میں نماز کے لیے غسل کرو ں توپھر مجھے غسل کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے؟

جواب:      ہاں غسل کے بعد فوراً بغیر وضو کے نماز پڑھ لو اسی طرح اگر آپ پر چند غسل واجب ہوگئے ہیں جیسے غسل جنابت اور غسل جمعہ تو جائز ہے کہ ایک غسل کو باقی غسلوں کے قصد سے کرلو اور اگر غسل جنابت کی خصوصاً نیت کرلی تو پھر دوسرے غسل کرنے کی ضروت نہیں ہے ہاں اگر آپ نے غسل جمعہ کی خصوصاًنیت کی ہے، تو یہ غسل آپ کو دوسرے غسل کرنے سے مستغنی نہیں کر سکتا۔

سوال:     کسی عورت کو غسل جنابت، غسل حیض اور غسل جمعہ کی ضرورت پڑجائے تو وہ کیا کرے  ؟

جواب:      وہ تمام غسلوں کی نیت سے ایک غسل کرسکتی ہے، یا وہ غسل جنایت کی نیت کرے، تو پھر دوسرے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سوائے غسل جمعہ کے جیسا کہ آپ کو اس سے پہلے والے سوال وجواب میں بتا دیا گیا ہے۔

میرے والد نے مزید فرمایا : میں آپ کو کچھ چیزیں بتاتا ہوں کہ جن کا غسل کرنے میں لحاظ کرنا ضروی ہے:

(1) آپ کو غسل سے پہلے یہ یقین ہوجانا چاہیے کہ جو جسم پر منی کا اثر تھا وہ ختم ہوگیا ہے یعنی جسم پر منی کی جو نجاست تھی پہلے اس کو دور کرکے جسم کو پاک کرنے کے بعد یقین ہوجائے کہ اب منی کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، پھر اس کے بعد غسل کی نیت  کرکے غسل کو پورا کریں۔

(۲)   غسل کرنے سے پہلے پیشاب کیا جائے تاکہ پیشاب کے ساتھ باقی رہنے والی منی نکل جائے۔

(۳)  جو چیزیں بدن تک پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہیں، ان کو دور کیا جائے جیسے چکنائی اور اگر اس کے دور کرنے سے معذور ہویا اس کو دور کرنا آپ پر مشکل ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرلیں اور اگر وہ مانع، تیمم کے اعضا میں ہوتو پھر غسل اور تیمم دونوں کرلیں۔

(۴) اگر غسل کے بعد کسی عضو کے صحیح دھونے میں آپ کو شک ہو جائے کہ فلاں عضو کو صحیح دھویا تھا یا نہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اور اگر آپ کو تمام سراور گردن کے دھونے میں شک ہو جائے اور آپ بھی بقیہ جسم کو دھونے میں مشغول ہیں تو آپ پر دوبارہ لوٹنا لازم ہے تاکہ جو مشکوک مقدار ہے اس کو دھوکر تدارک کرلیں۔

 

نام کتاب  آسان مسائل (حصہ اوّل) 
فتاوی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی مدظلہ العالی
ترتیب 

 عبد الہادی محمد تقی الحکیم  

ترجمہ سید نیاز حیدر حسینی 
تصحیح ریاض حسین جعفری فاضل قم 
ناشر  مؤسسہ امام علی،قم القدسہ، ایران 

کمپوزنگ

ابو محمد حیدری 

 


متعلقہ تحریریں:

 وضو پر گفتگو

جنابت پر گفتگو