• صارفین کی تعداد :
  • 1423
  • 12/29/2009
  • تاريخ :

تیس ہزار امریکی فوجی اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ( حصّہ دوّم)

پاکستان

 اگرچہ مسٹر اوباما ماضی کی پالیسیوں میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کرسی صدارت پر براجمان ہوئے لیکن وہ کر وہی رہے ہیں جو صدر بش اور ان کے حامی یعنی نیوکانز کی مرضی ہے ۔ حقیقت امر یہ ہے کہ دہشت گردی کی شکل میں اس وقت جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ امریکہ کی ہی دین ہے اور اب یہ بات اتنی کھل گئی ہے خود امریکی بھی اس کی تردید نہیں کر رہے ہيں ۔ البتہ پاکستان کے وزير اعظم کی جانب سے 30 ہزار مزید امریکی فوجیوں کی روانگي سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے وہ صرف خدشات ہی نہیں بلکہ حقیقت سے بہت قریب نظر آتے ہیں اس لئے کہ فرانس جرمنی اور نیٹو طرح امریکہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ افغانستان میں فوجی کامیابی کا حصول نہ تو واشنگٹن کے مدنظر ہے اور نہ ہی ان کے لئے ممکن ہے۔ اس لئے کہ امریکہ تو خود بحران اور دہشت گردی کا سب سے بڑا مروج تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پچھلے دنوں پاکستان کے تعلق ہے کئی ایک خبریں منظر عام پر آئیں جن میں امریکی سفارتخانے سے وابستہ افراد کی گاڑیوں کی غیر قانونی حرکات سکنات کا نوٹس لیا گيا اور بعض اوقات تو مقامی پولیس نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو گرفتار بھی کیا لیکن بقولے اوپر سے ملنے والے احکامات کے بعد، انہیں چھوڑگیا۔ پچھلے دنوں پانچ امریکی شہریوں کی گرفتاری کی خبر کی کافی دھوم مچی جو ایک حساس فوجی علاقے میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ حتی اپنی اتحادیوں کی پشت پر بھی خنجر کا وار کرنے سے نہیں چوکتا اور ایسے اقدامات کرتا نظر آ رہا ہے جو پاکستانی کی سالمیت کے سراسر منافی شمار ہوتے ہیں ۔ امریکہ کے خفیہ اداروں کے اہلکار خصوصی آپریشن میں مصروف ہیں بتایا جاتا ہے کہ گرفتار ہونے والے پانچوں امریکی اہلکار مقامی طالبان کے ساتھ  روابط کے ذریعے انہیں پاکستانی فوج کے خلاف کاروائي کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ضروری وسائل سے بس کرنا چاہتے تھے ۔ امریکہ کی اسی دورخی پالیسی کے پیش نظر پاکستانی فوج کے اعلی افسران اور حکام کو تشویش کہ امریکہ طالبان کے ذریعے پاکستان کی تعلقات تک رسائي حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ مناسب وقت ہو یہ دعوی کر سکے پاکستان اپنی ایٹمی تنصیبات حفاظت کرنے پر قادر نہیں ہے اور دہشت گردوں نے ایٹمی تنصیبات تک رسائي حاصل کرلی ہے حالانکہ یہ خود امریکہ ہے جو طالبان کی آڑ میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تک نفوذ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی فوجی کے اعلی حکام یہ سمجھتے ہیں امریکہ، سوات، مالاکنڈ، وزیرستان جنوبی اور دیگر قبائلی علاقوں میں طالبان کی تربیت اور انہیں فوجی وسائل سے لیس کرنے میں مشغول ہے اور سردیوں کے اس موسم میں جب کہ قبائلی عوام مختلف مقامات پر کیمپوں میں زندگي گزارے ہیں طالبان دہشت گرد نہایت آسانی کے ساتھ تخریبی کاروائیاں کر سکتے ہیں اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے یقینی طور پر طالبان کے پاکستان کی طرف کوچ کرجانے کی دل ہموار ہوگئی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس نے پاکستانی فوج کے خفیہ اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اس لئے کہ یہ بات واضح ہوگئي ہے کہ امریکہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تک رسائي کے لئے، طالبان کا سہارا لے رہا ہے اور پاکستان کی تشویش کی بنیادی وجہ اس روایتی حریف ہندوستان ہے کہ جو اس موضوع میں خاص دلچسپی رکھتا ہے پاکستانی حکام کے بقول قبائلی علاقوں سے پکڑجانے والے طالبان دہشت گردوں سے جو ہتھیار ملے ہیں وہ ہندوستانی ساخت کے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان اس علاقے میں امریکہ کے مفادات سے اپنے مفادات کو نتھی کر بیٹھا ہے اور  یہ سمجھ رہا ہے کہ مستقبل میں وہ اس خطے میں امریکی آنکھوں کا تارا بن جائے گا چنانچہ ہندوستان اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اس وقت امریکہ مفادات کی تکمیل کرتا نظر آرہا ہے اور پاکستان کو یہی چیز بری طرح کھٹک رہی ہے ۔ البتہ امریکہ باربار اس بات کی تردید کر رہا ہے کہ وہ ہندوستان کو  پاکستان پر ترجیح دیتا ہے لیکن جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے بہرحال امریکہ کا ماضی اور حال اس کے مستقبل کی تصویر کتنی کر رہا ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کی چالوں کو سمجھا جائے اور اس زيادہ اسے اس بات اجازت نہ دی جائے کہ وہ خطے کی حکومتوں کو بیوقوف بنا کر اپنے کم مدت اور دراز مدت اہداف پورے کر سکے، چاہے اس مقصد کے حصول کے لئے قومیں اگر نابود ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں ۔ 

اردو ریڈیو تہران