• صارفین کی تعداد :
  • 1471
  • 7/4/2012
  • تاريخ :

موسيقي کے اثرات مولانا کے کلام ميں بھي ظاہر ہو ئے ہيں

مولانا روم

 مولانا رومي کي شمس تبريز سے ذہني اور روحاني ہم آہنگي کا نتيجہ ہے کہ شريعت اور طريقت کي خليج کو پاٹ ديا گيا - شريعت اور طريقت کے ملاپ سے جو تصوف پيدا ہوا وہ ارفع ہے - اس کا ذکر مولانا کے اشعار ميں ملتا ہے- فرماتے ہيں :

يک دست جامِ بادہ و يک دست جعدِ يار

رقصي چنين ميانہ ميدانم آروزست

گفتم کہ يافت مي نشود جستہ ايم ما

گفت آنکہ يافت مي نشود آنم آرزو ست

***

باش اول برشريعت استوار

بعدازاں سوي طريقت رو بيار

     جذبہ اورعقل ميں جو تضاد ہے ان ميں آخر کار جذبہ کو فوقيت حاصل ہوتي ہے - حواس باطني سے جو جذبہ طے ہو وہ کبھي بھي اپني اثر آفريني کھو نہيں سکتا - ايک بار جب وجود باطني مکشوف ہو جاتا ہے اور آدمي کشف کي نعمت سے بہرہ ياب ہو جاتا ہے تو وہ جذبہ وہ تجربہ جو کشف کے ذريعہ پيدا ہوا ہے کبھي محو نہيں ہو سکتا - حقيقت مکشوف ابدي ہے اور حقيقت عقلي عارضي -مولانا رومي فرماتے ہيں :

بگذر از باغ جہان يک سحر اي رشک بہار

تا ز گلزار و چمن رسم خزان برخيزد

***

بار ديگر از دل و عقل و جان برخاستيم

يار آمد درميان ما از ميان برخاستيم

     مولانا رومي شمس تبريز کي صحبت کے باعث ہي سامع کے شيدا و والہ بنے اور ان کے بقول :

سماع از بہر و صلِ دلستانست

اور يہ کہ

سماع از بہر جان بي قرارست

 موسيقي کے اثرات ان کے کلام ميں بھي ظاہر ہو ئے ہيں - اس بنيادي خصوصيت کے بارے ميں پروفيسر نکلسن نے بھي اشارہ کيا ہے - علي دشتي نے اس کي يوں توضيح کي ہے ”‌جلال الدين با کلمات محدود و نارساي زبان ، نسبت بفکر و جوش دروني ہمان کاري را انجام ميدھد کہ موسيقي با ترکيب اصوات و آزاد از محدوديت -“ ديوان شمس کي اکثر غزليں اُن لگاتار موجوں کي صداوں کي مانند ہيں جو ہوا کے باعث ساحل سے ٹکراتي رہتي ہيں آواز آتي ہے :

اي يار من اي يار من اي يار بي زنہار من

اي ھجر تو دلسوز من اي لطف تو غمخوار من

خود ميروي در جان من، چون ميکني درمان من

اي دين من، اي جان من، اي بحر گوھر بار من

اي جان من اي جان من سلطان من سلطان من

درياي بي پايان من بالاتر از پندار من

وہ حقيقت کو اس انداز ميں پيش کرنے کے عادي ہيں کہ قارئين اس کا احساس کرنے کے باوجود اسے بيان نہيں کر سکتے - ان کا کلام ہميشہ طرب آور، ہموم انگيز اور تخيل پرور ہوتا ہے ليکن وہ احساس قارئين کي فکر کو ايسي جلا بخشتا ہے کہ وہ اسي کے ہو کر رہ جاتے ہيں - بسا اوقات ايسا محسوس ہوتا ہے کہ رومي شعر کہنا اور اپنے خاموش احساسات کو پيش کرنا نہيں چاہتے -وہ صرف اپنے ديکھے ہوئے خواب کو بيان کرنے کے خواہاں نظر آتے ہيں- چنانچہ وہ ہاتھ پاوں مارتے ہيں - ان کا يہ عمل موزوںاور خوش آہنگ کلمات کي صورت ميں ظاہر ہوتاہے اور ان کاشعر قارئين کو صبح کے پھولوں کي طراوت اور بادہ کہنہ کا نشہ بخشتا ہے - وہ خود کہتے ہيں :

ھمہ جوشم ھمہ موجم سر درياي تودارم

تحرير : ڈاکٹر انعام الحق کوثر

پيشکش: شعبہ تحرير و پبشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

انقلاب کے بعد  ادبي  ترجمہ کے حوالے سے ترقي ( حصّہ چہارم )