• صارفین کی تعداد :
  • 1565
  • 1/11/2012
  • تاريخ :

حسين ع کي تحريک، رہنمائے انسانيت (حصّہ سوّم)

محرم الحرام

واقعہ کربلا ايک اتفاقي حادثہ نہيں تھا- بلکہ اس کے اسباب و علل تھے- اس وقت حسين ابن علي ع کے سامنے دو راستے تھے- ذلت کے ساتھ بيعت يا شہادت تک مسۆليت کي ادائيگي- آپ نے مسئوليت کي ادائيگي کو مقدم سمجھا، چاہے اس راستے ميں انہيں اپني جان بھي کيوں نہ قربان کرنا پڑے- چنانچہ آپ نے اپنے بھائي محمد ابن حنفيہ کو وصيت کرتے ہوئے فرمايا-

’’ميں نے يوں ہي قيام نہيں کيا- نہ فساد اور ظلم و ستم ميرا مقصد ہے- ميں تو صرف اس لئے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کي امت کي اصلاح کروں- ميں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہي از منکر کو انجام دوں اور يوں اپنے نانا اور اپنے بابا کي سيرت کي پيروي کروں- اب اگر کوئي ميري دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرلے تو اس نے اللہ کا راستہ اختيار کيا اور اگر ميري دعوت کو مسترد کردے تو ميں صبر کروں گا، يہاں تک کہ ميرے اور ان افراد کے درميان اللہ فيصلہ کرے اور يقيناً اللہ بہتر فيصلہ کرنے والا ہے-‘‘

اگر بالفرض امام عليہ السلام سے بيعت کا مطالبہ نہ کيا جاتا تو کيا آپ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بيٹھے رہتے-؟ نہيں ايسا ہرگز نہيں ہوتا- اس لئے کہ امام عليہ السلام کا ارباب اقتدار سے اختلاف محض يزيد کي بيعت تک محدود نہيں تھا- اگر ارباب اقتدار بيعت کے سلسلے ميں خاموش بھي رہتے تو بھي امام عليہ السلام خاموش نہ رہتے، کيونکہ يزيد اور بنو اميہ ظلم و ستم، معاشرتي برائيوں اور اسلامي احکام ميں تبديلي چاہتے تھے- يہ وہ بڑي برائياں تھيں جن کي اصلاح امام اپني شرعي ذمہ داري سمجھتے تھے-

سيد الشہداء ع حاکم وقت کو ان صفات سے بے بہرہ ديکھتے ہيں، جن سے ايک مسلمان حکمران کو متصف ہونا چاہيے اور الہي نمائندہ کے طور پر اپنے آپ کو پيش کرنے والے کو مسترد کرتے ہيں- چنانچہ اپنے ايک خطبے ميں فرماتے ہيں’’اے لوگو! رسول خدا ص نے فرمايا! اگر کوئي شخص کسي ظالم حاکم کو ديکھے جو ظالم و ستمگر ہو کہ اللہ کے حرام کئے ہوئے کو حلال بنا رہا ہو، خدا سے کئے ہوئے عہد و پيمان توڑ رہا ہو، رسول اللہ کي سنت کي مخالفت کرتا ہو اور اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم سے پيش آتا ہو اور (يہ شخص) ايسے حاکم کو ديکھنے کے باوجود اپنے عمل يا اپنے قول سے اس کي مخالفت نہ کرے تو اللہ کو حق ہے کہ اس (خاموش اور بے عمل) شخص کو اسي ظالم کے ہمراہ عذاب ميں مبتلا کرے- اے لوگو! جان لو---ان لوگوں نے شيطان کي اطاعت اختيار کي‘، رحمن کي اطاعت کو ترک کر ديا- فتنہ و فساد کو رواج ديا ہے- اللہ کي حدود کو معطل کيا ہے- ميں ان مفسدوں کے مقابلے ميں اسلامي معاشرے کي رہبري کا زيادہ حقدار ہوں اور ايسے حالات ميں ايک مسلمان کا فريضہ يہ ہے کہ خاموش نہ بيٹھے-‘‘

تحرير:علامہ سيد عبدالجليل نقوي  ( اسلام ٹائمز )

پيشکش: شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

سفير حسيني ( حصہ سوم )