• صارفین کی تعداد :
  • 3720
  • 4/5/2009
  • تاريخ :

جگنو

جگنو

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا

ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

حسِن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی

لےآئی جس کو قدرت خَلوت سے انجمن میں

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی

نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں

پروانہ اک پتنگا، جگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی

پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی

رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو

گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی

نظّارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی

چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی

رنگیں کیا سحر کو، بانکی دلہن کی صورت

پہنا کےلال جوڑا شبنک کی آرسی دی

سایہ دیا شجر کو ، پرواز دی ہوا کو

پانی کو دی روانی ، موجوں کو بے کلی دی

یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری
جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

حسِن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہےجو کچھ، یاں درد کی کسک ہے

اندازِ گفتگو نے دھوکے دیئے ہیں، ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے

کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو

ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشٔی ازل ہو

 

شاعر کا  نام : علامہ محمد اقبال ( iqbal )

کتاب کا نام : بانگ درا  ( bang e dara )

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان