اے ہمالہ ! اے فصیل کشور ہندوستان |
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان |
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں |
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں |
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لۓ |
تو تجلّی ہے سراپا چشم بینا کے لۓ |
امتحان دیدہ ظاہر میں کوہستاں ہے تو |
پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندوستاں ہے تو |
مطلع اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو |
سوۓ خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو |
لع اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو |
سوۓ خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو |
برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر |
خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر |
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن |
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن |
تو زمیں پر اور پہناۓ فلک تیرا وطن |
چشمۂ دامن ترا آئنۂ سیاّل ہے |
دامن موج ہوا جس کے لۓ رومال ہے |
ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے |
تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے |
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی ، جسے |
دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لۓ |
ہاۓ کیا فرط طرب میں جومتا جاتا ہے ابر |
فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر |
جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی |
جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی |
یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی |
دست گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی |
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا |
کنج خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا |
آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی |
کوثر و نسیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی |
آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی |
سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی |
چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو |
|
اے مسافر دل سمجھا ہے تری آواز کو |
لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا |
دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا |
وہ خموشی شام کی جس پر تکلّم ہو فدا |
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا |
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر |
خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر |
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا |
مسکن آباۓ انساں جب بنا دامن ترا |
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا |
داغ جس پر غازہ رنگ تکلّف کا نہ تھا |
ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح شام تو |
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایاّم تو |