• صارفین کی تعداد :
  • 5983
  • 12/31/2012
  • تاريخ :

جوان کيسے اپني مدد کر سکتا ہے ؟

نوجوان نسل

نوجواني اپني ہويت اور پہچان کا دور

نوجوانوں کي فکري تشويش

اپنے کو پانے اور حقيقت کي راہ پر گامزن ہونے کے لئے نوجوان کے وجود ميں بنيادي عقائد کے راسخ ہونے کے لئے اور تربيت کے لحاظ سے قانون پر عمل کرنے والوں ميں شمار ہونے کے لئے درج ذيل طريقوں پر عمل کرتا ہے

تعليم حاصل کرنا : جوان اور اک نوجوان اک اصلي وظيفہ کي صورت ميں علم حاصل کرتا ہے، تحصيل علم اور علم ميں اضافہ قيمتي ترين گوہريعني درّبے بہا جس کے حاصل کرنے کے بعد ہدايت کي راہ ميں استفادہ کيا جاسکتا ہے ،زندگي ميں طاقت کا بہترين ذريعہ علم ہے ”

لہٰذا اسي وجہ سےديني کتابوں کا پڑھنا عقائد کي راہ ميں علم ميں اضافہ کرنے کا بہترين راستہ ہے علم و دانائي سے بے بہرہ شخص کبھي قادر نہيں ہو سکتا کہ اپنے متعلق احکام الٰہي کو سمجھے اور صحيح طريقے سے ان پر عمل کرے اور نتيجے ميں شايد زندگي کا مطلب سمجھ نہ سکے ”

فکر کرنا : علم حاصل کرنا يعني دوسروں کي فکر سے استفادہ کرنا ہے جو کتاب وغيرہ کے صفحات پر تحرير ہے ليکن زندگي کے مراحل اور مختلف موقعوں پر ذاتي فکر يہي ہے جو راستہ اور راہ حل دکھا سکتي ہے ،دوسرے لفظوں ميں اگر چہ تعليم حاصل کرنے سے انسان کے سوچنے کي قوت ميں اضافہ ہوتا ہے يعني بالندگي آتي ہے ليکن ہر فرصت اور نئے موقعہ اور موڑ پر سوچنا اور فکر کرنا ہي مناسب راہنما ہے جس کے ذريعہ حادثات اور مشکلات کا بہتر طور پر تجزيہ تحليل کر سکتا ہے اور مناسب طريقے سے ان کا سامنا کر سکتا ہے ”

ايمان : ايان سے مراد خالق کائنات کے متعلق قلبي عقيدہ اور اسکے دستورات اور احکام پر دل سے عقيدہ اور پر سر تسليم خم کر دينا ہے جس قدر ايمان قوي ہوگا اسي قدر زيادہ پہلوئں ميں اس کا اظہار ہوگا اور انسان کے وجود ميں تجلي پائے گا لہٰزا اگر کوئي شخص اپني زندگي کے امور ميںخداوند عالم کو مد نظر رکھے گا اسکا اپنے اوپر اعتماد بڑھ جائے گا اور ايک قوي طاقت حاصل ہوگي جوہميشہ اسکي پشت پناہ ہوگي ”

مثبت کام : اچھے کام انجام دينا ہميشہ شخص کي موقعيت کي تقويت اور آساني کا سبب ہوتاہے وہ بھي اسي طرح کے قرآن مجيد ميں نک اعمال کو رشد وکمال اور مومنو ں ميں پوشيدہ اتعداد کي شکوفائي کے عنوان سے پہچان کرائي جاتي ہے ”

يہ جاننا بہتر ہے کہ ديني تعليم کا نيک عمل نيز علم و ايما ن ميں بہت زيادہ اثر ہوتا ہے لہٰذا اس بناء پر بہترين عمل يہ ہے کہ ہم اپنے احکام اور ديني وظائف کو انجام ديں اور دوسروں کو نيک کاموں کا شوق دلائيں اور برے کاموں سے بچائيں الٰہي احکام يعني ديني وظائف پر عمل کرنا جيسے ترقي اور پيشرفت کرنے کے لئے ہمتو ں کو تقويت ديتا ہے اور زندگي ميں خدا وند عالم کے وجود کے احساس کا تجربہ کراتا ہے ويسے ہي اصل ايمان نظر اور ديني پائيندي کو بھي بڑھاتا ہے انسان کي ذاتي نظر کو وسعت کرتا ہے اور زندگي کي مہم تبديليوں ميں توکل اور اعتماد کے ساتھ بہترين اور صحيح صورت کو انتخاب اور مقصد تک پہچنے کا باعث ہوتا ہے ”

لہٰذا اب سب کو ملا کر نتيجہ ليتے ہيں :

ہم سب يہ جان ليں کہ اگر چہ جواني کاحساس دور فکر و انديشہ کے جوش ميں آنے کا دور ہے ليکن چونکہ اس کے بنيادي ستون ابھي مضبوط نہيں ہوتے ہيں اس لئے بے شمار اعتراضات کي آماجگاہ قرار پاتا ہے اور اگر ہم مدد کريں کہ جوان مزيد معلومات حاصل کرنے ، سوچنے اور نيک کام انجام دينے ميں مصروف ہو جائے نيز اپنے کاموں ميں خدا کو ياد رکھے تو ديني، عقلي، اخلاقي، سماجي و غيرہ ترقي کي راہوں کو کاميابي سے طے کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے ”

بشکريہ: الحسنين ڈاٹ کام

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان