• صارفین کی تعداد :
  • 2638
  • 7/9/2012
  • تاريخ :

امام زمان (عج) کے حقيقي ياروں کي ايک امتيازي خصوصيت " شھادت طلبي " ہے

امام زمانہ

امام حسين (ع) کے اہلبيت (ع) بھي حريت پسند اور ظلم ستيز تھے اور دشمن کے سامنے اس کا بخوبي مظاہرہ بھي کيا - انہوں نے راسخ ايمان اور دليري کے ساتھ ، خاندان پيغمبراکرم (ص) کے افتخاروں اور امويوں حکام کے سابقہ مظالم بيان کئے اور حسيني آزادي ، اقتدار اور افتخار کا عملي نمونہ پيش کيا - اسي طرح جب حضرت زينب (س) نے قصر يزيد ميں خطبہ پڑھا تو اسے شيطان کے نام سے پکارا ، وہ اسے بات کرنے کے لائق بھي نہيں سمجھتي تھي اور اس سے اس طرح بات کي جيسے ايک چھوٹے بچے کے ساتھ بات کررہي ہو! :

" اے معاويہ کے بيٹے ، اگرچہ زمانے کے مصائب اور سختيوں نے مجھے ايسے حالات ميں کھڑا کرديا ہے کہ تم سے بات کروں ، ليکن ميں تجھے حقير سمجھتي ہوں اور بہت زيادہ مذمت کرتي ہوں اور بہت ہي زيادہ تحقير - کتنا حيرت انگيز ہے مردان ِخدا ، شيطاني لشکر کے ہاتھ سے مارے جائيں ! ، تمہارے ہاتھ ہمارے خون سے رنگين ہے اور تمہارے منہ خاندان پيغمبر کے گوشت سے بھرے ہے --- آگاہ ہوجاؤ! کہ تمہاري عقل بہت زيادہ کمزور ہے اور تيري زندگي کا زمانہ جلدي ہي ختم ہونے والا ہے ! - "

اسي طرح جب ابن زياد نے امام سجاد (ع) کو قتل کرنے کي دھمکي دي ، تو امام عالي مقام نے جواب ميں فرمايا :

" اے مرجانہ کے بيٹے ، کيا مجھے موت سے ڈرا رہے ہو ؟ ، مگر تجھے نہيں معلوم ہم نے مارے جانے کي عادت کي ہوئي ہيں ؟ ، ہماري شرافت اور عظمت اِس ميں ہے کہ راہ خدا ميں شھادت قبول کريں ، اور (ہم) اس سے (کسي قسم کا ) خوف نہيں کھاتے ہيں - ''

امام زمان (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي بھي ايک اہم اور امتيازي خصوصيت " شھادت طلبي اور سعادت خواہي " ہے - اس بارے ميں حضرت امام صادق (ع) يوں فرماتے ہيں :

" وہ خداوند کے ڈر سے ، خوفزدہ ہيں اور شھادت کي آرزو کرتے ہيں - ان کي تمنا راہ خدا ميں مرجانے کي ہے اور ان کا نعرہ " يالثارات الحسين ؛ اے حسين(ع) کے خون کا انتقام لينے والو " ...!-" بے شک امام حسين (ع) کے اصحاب اور اہل بيت کي حريت پسندي اور ظلم ستيزي کي جڑ ان کے امام کي حريت پسندي اور آزادي خواہي ميں موجود ہے - وہ امام عالي مقام جو راہ حق ميں آنے والي موت ، افتخار و عزت اور زينت سمجھتا تھا اور تلوار کي عزت بھري موت يا ذلت بھري حيات کے دو راستوں ميں ، موت کے استقبال ميں قدم بڑھايا - اس طرح اپني ذمہ داري کو خون ِشھادت سے سيراب ہوکر، بخوبي عملي جامہ پہنايا اور دونوں عالم ميں سرخرو و سرفراز اور خداوند عالم کے سب سے پسنديدہ بندے بن گئے نيز روزقيامت تک ساري بشريت کے لئے حقيقي معني ميں زندگي گذارنے کا بہترين اور ممتاز حريت پسندي اور ظلم ستيزي کا آئڈئيل بن گئے !-

" اَلا اِنَّ الدعي بن الدعي قَد رَكَزَني بَين اثْنَتَين، بَينَ السله و الذِله وَ هَيهات مِنَا الذِّلَه "-

امام زمان (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي بھي ايک اور اہم امتيازي خصوصيت " حريت پسندي اور ظلم ستيزي " ہے -

وہ بھي دنيا کي قيد و بندش نيز دولت و مقام طلبي سے نجات پائے ہيں - يہي بات باعث بني ہے کہ وہ ظالمين اور عدالت کے دشمنوں کے ساتھ لڑے گے - افسوس سے بعض عدالت رواج ديني والي حکومتيں امام عالي مقام کو برداشت نہيں کرپائے گے ، کيونکہ حضرت وليعصر(عج) کا مثالي معاشرہ ان کے منافع کا مخالف ہے - اسي وجي سے امام کي حکومت کے مقابلے ميں صف کھينچے گے اور امام کے پاس ان کے ساتھ جھاد اور لڑنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہيں ہوگا - اسي بنا پر امام عالي مقام کے حقيقي يار و دوست بھي ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے والے ہونگے تاکہ ہر قسم کے ، حق و ہدايت سے انحراف اور عدالت کي مخالفت کے خلاف جھاد کرسکيں - اميرالمومنين حضرت علي (ع) نے آيہ کريمہ " يجاهدون في سبيل الله " ، کے بارے ميں فرمايا ہے :

" هُم اَصحابُ القائِمِ ؛ وہ ہي قائم کے (حقيقي) يار و دوست ہيں- " يعني راہ خدا ميں حقيقي طور پر نصرت اور جھاد کرنے والے امام آخرالزمان (عج) کے ہي حقيقي اور سچے يار و دوست اور ساتھي ہوں گے ! -

امام زمان (عج) کا ايک اہم اقدام ، نافرماني ، گناہ و معصيت کا مقابلہ کرنا اورحقيقي عزت و شرافت کا رواج دينا ہے -

" اَينَ مُبيدُ اَهلِ الفُسوقِ وَ العِصيان وَ الطُغيان  ؛ کہاں ہے ، فساد ، گناہ اور سرکشي کي بنياد نابود کرنے والے ! " -

" اَينَ مُعِزُّ الاَولِياءِ وَ مُذِلّ الاَعداء ؛ کہاں ہے ، دوستوں کو عزت بخشنے والے اور دشمنوں کو ذلت دينے والے ! " -

امام عالي مقام کے يار و دوستوں کو بھي انفرادي و اجتماعي اور عملي طور پر گناہ و معصيت کي جڑ اکھاڑ پھينکنے والا بننا چاہيے اور اپنے امام عالي مقام کي ، معاشرے ميں عزت و شرافت کا رواج دينے ميں ان کي مدد و نصرت کرني چاہيے ! -

دونوں امام کے حقيقي يار و دوستوں اور ساتھيوں کي اپني عظيم ، اہم اور امتيازي خصوصيتوں کي وجہ سے وہ اپنے امام عالي مقام کے قابل تعريف بن گئے - امام حسين (ع) نے اپنے يار و دوستوں کو ، سب سے زيادہ وفادار اور بہترين ساتھي قرار ديا ! - (76) جبکہ امام علي (ع) حضرت مهدي (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي تعريف ميں فرماتے ہيں :

" ميرے ماں باپ اس چھوٹي سي جماعت پر فدا ہو جو کہ زمين ميں نامعلوم ہيں !- "

اس اميد کے ساتھ کہ ہم بھي ان جناب کے ايسے باعظمت اور مثالي يار و دوستوں کي ايسي مذکورہ ممتاز اور انوکھي خوبيوں کي صلاحيت اور قابليت سے سرشار ہوسکيں تاکہ امام زمان (عج) کے کلام مبارک کے مخاطب ہم بھي بن سکيں اور دنيا و آخرت ميں حقيقي اور خالص پاکيزہ حيات سے لطف اندوز اور لبريز ہوسکيں اور ہميشہ کے لئے سعادتمند اور نجات يافتہ بن سکيں ! -

بشکريہ اھل البيت ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

 دين کي حمايت و حفاظت