• صارفین کی تعداد :
  • 2415
  • 2/26/2011
  • تاريخ :

اردو اور فارسی میں محاورات کا اشتراک

اردو کے  حروف تہجی

   اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ "فارسی اردو کی ماں ہے" برصغیر اور فارسی کا رشتہ گزشتہ آٹھ سو برسوں پر محیط ہے۔ خاندان غلامان کی مسلم حکومت کے ساتھ ہی فارسی بھی برصغیر میں آئی۔ ایران اور دیگر فارسی بولنے والے خطوں سے اہل شعر و حکمت وادب ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور یہاں کی سرزمین نے بھی ان کے لیے اپنی باہیں کھولیں۔ اس ارتباط سے ایک نیا تہذیبی اور لسانی منظرنامہ مرتب ہونے لگا۔ یہاں فارسی کا اثر فوری ہوا اور جامع بھی اس لیے کہ فارسی زبان میں علمی اور مذہبی کتب کی فراوانی تھی اور ہندوستان میں مذہبی تعلیم کا ذوق و شوق بھی والہانہ تھا۔ فارسی ہندوستان کی واحد علمی زبان بن کر ابھری اس لیے کہ سنسکرت کوہندوستانی پنڈتوں نے صرف مقدس علمی اور عام لوگوں کے لیے متروک زبان بنا کر چھوڑ دیا تھا۔ فارسی زبان نے جہاں اس خطے میں علمی اور ادبی ترقی کی راہ ہموار کی وہاں اس خطے کی زبانوں پر بے شمار انمنٹ نقوش اور اثرات بھی چھوڑے۔

 

   محاورے کسی بھی زبان کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو صدیوں کی پیداوارہوتے ہیں اور جس سے زبان کی وسیع دامنی اور اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ اردو زبان دنیا کی ان چند خوش قسمت زبانوں میں سے ایک ہے جس میں محاوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اردو محاروں کی ساخت اور پرداخت میں سب سے زیادہ حصہ فارسی زبان کا ہے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اردو زبان الفاظ، تراکیب، صرفی نخوی ڈھانچے میں بھی فارسی سے استفادہ کرتی رہی ہے لیکن جہاں تک محاوروں کی اشتراک کا سلسلہ ہے اس میں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اردو زبان نے زیادہ تر فارسی محاروں کو یا تو کاملاً اپنایا ہے یا پھر ان محاوروں کو اپنے رنگ ڈھنگ میں اپنے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کے محرکات کا اگر اندازہ لگایا جائے تو ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنا پڑیں گے۔ اردو اور فارسی کا ابتدائی ملاپ یا تو صوفیاء کے ہاں ہوا یا پھر دربار اور حراموں میں صوفیاء کو عام لوگوں سے مخاطب ہونا تھا اور انہیں فارسی زبان پر عبول حاصل ہوتا تھا وہ اپنی بات سمجھانے کےلیے فارسی محاروں کا استعمال کرتے تھے اور دربار اور حراموں میں اپنی گفتگو کو پر اثر بنانے کے لیے فارسی محاوروں کا استعمال عام تھا یوں پورے ہندوستان میں فارسی محاورے زبان زد عام ہونے لگے۔ اردو چونکہ صوفیاء اور درباردونوں کی زیر استعمال رہی اس لیے فارسی کے ان محاوروں کا بعینہ ویسا استعمال اردو میں بھی ہونے لگا یوں اس ریت اور روایت کو اردو زبان کے ادیبوں اور شعراء نے بھی قبول کیا اور پورے اردو ادب کے ذخیرے میں فارسی محاورے محفوظ ہوگئے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یہ تفریق بھی نہیں کرپاتے کہ یہ محاورے فارسی کے ہیں بلکہ ہم نے ان محاوروں کو اتنا لوکلائز کرلیا ہے کہ ہم ان پر اپنا حق جتانے لگے ہیں۔ ذیل میں مختلف کتابوں، لغات اور تحریروں سے کچھ محاورے جمع کیے گئے ہیں، جن کےمطالعے سے اندازہ ہوگا کہ اردو اور فارسی زبان میں محاوروں کا اشتراک کتنا ہے اور کس نوعیت کا ہے۔

 

اردو فارسی
آپ زندہ، جہاں زندہ، آپ مردہ، جہاں مردہ خودزندہ، جہان زندہ، خود مردہ، جہان مردہ
آپ کو فصیحت اور کو نصیحت خودرافصیحت، دیگران رانصیحت
آپ کا نوکر ہوں، بینگنوں کا نوکر نہیں من نوکر حاکم نہ نوکر بادنجان
آپ ہی بی بی، آپ ہی باندی آقای خودم ھستم ونوکرخودم
آپ ہی مارے، آپ ہی چلائے خود می زند و خود فریادمی کند
آج کا کام کل پر مت ٹالو کارامروزبہ فردامگذار
اپنے کیے کا علاج نہیں خود کردہ راتدبیر نیست
اچھے برے میں چار انگل کا فرق ہے بین خیروشر چھار انگشت فاصلہ است
ادھار محبت کی قینچی ہے قرض مقراض محبت است
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کورازخداچہ می خواھد؟ دوچشم بینا
اندھے کودن رات برابر برای کور شب و روز یکی است
اونٹ چڑھے کتا کاٹے ختِ بد با کسی کہ یار بود ر سگ گزدش گر شترسوار بود
بات سے بات نکلتی ہے سخن از سخن خیزد
بنیے کا سلام بے عرض نہیں ہوتا سلام روستایی بی غرض نیست
بہشت ماں کے قدموں تکے ہے ہشت زیرپای مادران است
پیسہ ہاتھ کا میل ہے مال دنیا چرک دست است
ٹوپی سے بھی مشورہ کرنا چاہیے کلاھت راقاضی کن
جب تک دم ہے، تب تک غم ہے تا دم است، غم است
جہاں گل ہوگا، وہاں خار بھی ضرور ہوگا ھرجاگلی است خاری درپھلوی اوست
جہاں گنج، وہاں رنج گنج بی رنج ندیدہ است کسی
ضرورت ایجاد کی ماں ہے احتیاج مادر اختراع است
من میں بسے، دسپنے دسے ھمہ جاش سست و مست است فقط نون دونیش درست است
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان نیم طیب خطرجان، نیم فقیہ خطر ایمان
وقت نہیں رہتا بات رہ جاتی ہے زمستان می گذردوروسیاھی بہ زغال می ماند
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا دردنیا ھمیشہ بیک پاشنہ نمی گردد
ہرشخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے ہرکس سلیقہ ای دارد
ہماری بلی اور ہمیں سے میاؤں ازخودم مُلا شدی برجان من بلاشدی
ہیرا کیچڑ میں بھی ہیرا رہتا ہے دُر دَرخلاب نیز دُراست
یاروہی جو بھیڑ میں کام آئے دوست آن باشدکہ گیردست دوست
یار کا غصہ بھٹار کے اوپر زورش بہ خرنمی رسد پالانش رامی زند

 

مندرجہ بالا مثالیں مشتے نمونے ازخروارے ہیں، اردو اور فارسی زبان میں اشتراکات کا سلسلہ بہ ہر پہلو مضبوط ہے۔ اس کے پیچھے دراصل صدیوں کا باہمی اختلاط ہے، دونوں زبانوں نے ایک ساتھ ایک ہی ماحول میں پرورش پائی اور لسانی قربت کی وجہ سے اشتراکات کا ہونا لازم ہے، اردو محاورہ پر فارسی محاورات کا اثر بہت زیادہ ہے بیشتر محاورے تو ہو بہو وہی ہیں جو فارسی میں ہیں اور جو باقی ماندہ ہے وہ فارسی سے اختراع کردہ ہیں۔  تہذیب وتمدن اور معاشرت پر بھی اس اختلاط کا اثر پڑا ہے اور فارسی بولنے والوں کا اثر جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر غلام مروت


متعلقہ تحریریں:

ولی دكنی كا سفر دہلی

 مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتی

ن م راشد – ایک تعارف

ہائیکو نگاری کے تسلسل میں ‘ ٹھنڈاسورج’

حالی کے نظم فکری کا جائزہ