• صارفین کی تعداد :
  • 916
  • 2/23/2011
  • تاريخ :

گنڈا سا

احمد ندیم قاسمی

اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی ”چوکیاں “ چن لی تھیں۔ ”پڑکوڈی“ کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوۓ ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھینٹھۓ ان کے چپڑے ہوۓ لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جا رہا تھا۔ مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوا رہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا، پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آۓ، انہوں نے بجتے ہوۓ ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوۓ بھاگنے لگے اور پھر آناً فاناً سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی۔”مولا کہاں ہے؟“

مولا ہی کا کھیل دیکھنے تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھنچے چلے آۓ تھے۔ ”مولا کا جوڑی وال  تاجا بھی تو نہیں!“ دوسرا بھنور پیدا ہوا لوگ پوربی چوکوں کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے، جما ہوا پڑ ٹوٹ گیا۔ منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر مار مار کر بڑھتے ہوۓ ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون نہ تھا مگر جب یہ سرگوشی ان کے کانوں میں سیروں بارود بھرا ہوا ایک گولا ایک چکرا دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ لوگ پڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس جانے لگے۔ مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا۔ اس نے پھندنوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ہوۓ ڈھول کے گرد بڑے وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر ڈھول کو پوروں سے چھو کر یا علی (ع)  کا نعرہ لگانے کے لۓ ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز ڈھولوں کی دھما دھم چیرتی پھاڑتی اس کے سینے پر گنڈاسا بن کر پڑی مولے“ ”اے مولے بیٹے۔ تیرا باپ قتل ہو گیا!“

مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا اور پھر ایک دم جیسے اس کے قدموں میں نہتے نکل آۓ۔ ”رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا ہے گنڈاسے سے!“ ان کی ماں کی آواز نے اس کا تعاقب کیا!

پڑ ٹو ٹ گیا۔ ڈھول رک گۓ۔ کھلاڑی جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے۔ ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ مولا کے جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں کونڈتے بکھیرتا اڑا جا رہا تھا۔ بہت پیچھے اس کا جوڑی وال تاجا اپنے اورمولا کے کپڑوں کی گٹھڑی سینے سے لگاۓ آ رہا تھا اور پھر اس کے پیچھے ایک خوف زدہ ہجوم تھا۔ جس گاؤں میں کسی شخص کو ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہو سکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پہناریوں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں کے ریوڑوں کو چیرتا ہوا لپکا جا رہا تھا اور جب وہ رنگے کی چوپال کے بالکل سامنے پہنچا تو سامنے ایک اور ہجوم میں سے پیر نور شاہ نکلے اور مولا کو للکار کر بولے۔ ”رک جا مولے!“

مولا لپکا گیا مگر پھر ایک دم جیسے اس کے قدم جکڑ لۓ گۓ اور وہ بت کی طرح جم کر رہ گیا۔ پیر نور شاہ اس کے قریب آۓ اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے۔ ”تو آگے نہیں جاۓ گا مولا!“

ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیر نور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔ پھر بولا ”آگے نہیں جاؤں گا پیر جی تو زندہ کیوں رہوں گا؟“۔

”میں کہہ رہا ہوں“ پیر جی  ”میں“ پر زور دیتے ہوۓ دبدبے سے بولے۔

مولا ہانپنے کے باوجود ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ ”تو پھر میرے منہ پر کالک بھی مل ڈالۓ اور ناک بھی کاٹ ڈالۓ میری، مجھے تو اپنے باپ کے خون کا بدلہ چکانا ہے پیر جی۔ بھیڑ بکریوں کی بات ہوتی تو میں آپ کے کہنے پر یہیں سے پلٹ جاتا۔“

مولا نے گردن کو بڑے زور سے جھٹکا دے کر رنگے کے چوپال کی طرف دیکھا۔ رنگا اور اس کے بیٹے بٹھوں سر گنڈاسے چڑھاۓ چوپاۓ پر تنے کھڑے تھے۔ رنگے کا بڑا لڑکا بولا۔

”آؤ بیٹے آؤ۔ گنڈاسے کے ایک ہی وار سے پھٹے ہوۓ پیٹ میں سے انتڑیوں کا ڈھیرا نہ اگل ڈالوں تو قادا نام نہیں، میرا گنڈاسا جلد باز ہے اور کبڈی کھیلنے والے لاڈلے بیٹے باپ کے قتل کا بدلا نہیں لیتے، روتے ہیں اور کفن کا لٹھا ڈھونڈنے چلے جاتے ہیں۔“

احمد ندیم قاسمی

مولا جیسے بات ختم ہونے کے انتظار میں تھا۔ ایک ہی رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔ مگر اب کبڈی کے میدان کا ہجوم بھی پہنچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اس کے راستے میں حائل ہو گیا تھا۔ جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا اس لۓ وہ روکنے والوں کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا مگر پھر جکڑ لیا جاتا۔ ہجوم کا ایک حصہ رنگے اور اس کے تینوں بیٹوں کو بھی روک رہا تھا۔ چار گنڈاسے ڈوبتے ہوۓ سورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکا رہے تھے کہ اچانک جیسے سارے ہجوم کو سانپ سو نگ گیا۔ پیر نور شاہ قرآن مجید کو دونوں ہاتھوں میں بلند کۓ چوپال کی سیٹرھیوں پر آۓ اور چلاۓ۔”اس کلام اللہ کا واسطہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ بدبختو گاؤں کا گاؤں کٹ مرے گا۔ جاؤ  تمہیں خدا اور رسول (ص)  کا واسطہ، قرآن پاک کا واسطہ، جاؤ، چلے جاؤ۔“

لوگ سر جھکا کر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ مولا نے جلدی سے تاۓ سے پٹکا لے کر ادب سے اپنے گھٹنوں کو چھپا لیا اور سیٹرھیوں پر سے اتر گیا۔ پیر صاحب قرآن مجید کو بغل میں لۓ اس کے پاس آۓ اور بولے۔”اللہ تعالی تمہیں صبر دے اور آج کے اس نیک کام کا اجر دے۔“

مولا آگے بڑھ گیا۔ تاجا اس کے ساتھ تھا اور جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچے تو مولا نے پلٹ کر رنگے کی چوپال پر ایک نظر ڈالی۔

”تم تو رو رہے ہو مولے؟“ تاجے نے بڑے دکھ سے کہا۔

اور مولا نے اپنے ننگے بازو کو آنکھوں پر رگڑ کر کہا۔ ” تو کیا اب روؤں بھی نہیں؟“

”لوگ کیا کہیں گے؟“ تاجے نے مشورہ دیا۔

”ہاں تاجے!“ مولا نے دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا۔ ”میں بھی تو یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے باپ کے خون پر مکھیاں اڑ رہی ہیں اور میں یہاں گلی میں ڈورے ہوۓ کتے کی طرح دم دباۓ بھاگا جا رہا ہوں ماں کے گھٹنے سے لگ کر رونے کے لۓ !“

لیکن مولا ماں کے گھٹنے سے لگ کر رویا نہیں۔ وہ گھر کے دالان میں داخل ہوا تو رشتہ دار اس کے باپ کی لاش تھانے اٹھا لے جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ منہ پیٹتی اور بال نوچتی ماں اس کے پاس آئی اور ”شرم تو نہیں آتی“ کہہ کر منہ پھیر کر لاش کے پاس چلی گئی۔ مولا کے تیور اسی طرح تنے رہے۔ اس نے بڑھ کر باپ کی لاش کو کندھا دیا اور برادری کے ساتھ روانہ ہو گیا۔

اور ابھی لاش تھانے نہیں پہنچی ہو گی کہ رنگے کی چوپال پر قیامت مچ گئی۔ رنگا چوپال کی سیڑھیوں پر سے اترکر سامنے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ کہیں سے ایک گنڈاسا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اس کے پھٹے ہوۓ پیٹ سے باہر ابل کر اس کے گھر کی دہلیز پر بھاپ چھوڑنے لگا۔ کافی دیر کو افراتفری کے بعد رنگے کے بیٹے گھوڑوں پر سوار ہو کر رپٹ کے لۓ گاؤں سے نکلے، مگر جب وہ تھانے پہنچے تو یہ دیکھ کر دم بخود رہ گۓ کہ جس شخص کے خلاف وہ رپٹ لکھوانے آۓ ہیں وہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھا تسبیح پر قل ھو اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ تھانے دار کے ساتھ انہوں نے بہت ہیر پھیر کی کوشش کی اور اپنے باپ کا قاتل مولا ہی کو ٹھہرایا مگر تھانیدار نے انہیں سمجھایا کہ ”خواہ مخواہ اپنے باپ کے قاتل کو ضائع کر بیٹھو گے، کوئی عقل کی بات کرو۔

ادھر یہ میرے پاس اپنے باپ کے قتل کی رپٹ لکھوا رہا ہے ادھر تمہارے باپ کے پیٹ میں گنڈاسا بھی بھونک آیا ہے۔“

آخر دونوں طرف سے چالان ہوۓ، لیکن دونوں قتلوں کا کوئی چشم دید ثبوت نہ ملنے کی بناء پر طرفین بری ہو گۓ اور جس روز مولا رہا ہو کر گاؤں میں آیا تو اپنی ماں سے ماتھے  پر ایک طویل بوسہ ثبت کرانے کے بعد سب سے پہلے تاجے کے ہاں گیا۔ اسے بھینچ کر گلے لگایا اور کہا۔ ”اس روز تم اور تمہارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک رہا ہوتا۔ تمہاری جان کی قسم جب میں نے رنگے کے پیٹ کو کھول کر رکاب میں پاؤں رکھا ہے، آندھی بن گیا خدا کی قسم.... اسی لۓ تو لاش ابھی تھانے بھی نہیں پہنچی تھی کہ میں ہاتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا۔“


متعلقہ تحریریں:

 مولانا حسرت موہانی کی آپ بیتی

ن م راشد – ایک تعارف

ہائیکو نگاری کے تسلسل میں ‘ ٹھنڈاسورج’

حالی کے نظم فکری کا جائزہ

مسدس حالی