• صارفین کی تعداد :
  • 3726
  • 5/13/2009
  • تاريخ :

آدم عليہ السلام جنت ميں

بسم الله الرحمن الرحیم

گذشتہ بحثيں جوانسان كے مقام وعظمت كے بارے ميں تھيں ان كے ساتھ قرآن نے ايك اور فصل بيان كى ہے، پہلے كہتا ہے : "" ياد كرو وہ وقت جب ہم نے فرشتوں سے كہا آدم كے لئے سجدہ وخضوع كرو، ان سب نے سجدہ كيا سوائے ابليس كے، جس نے انكار كيا اور تكبر كيا اور اسى تكبر ونا فرمانى كى وجہ سے كافروں ميں داخل ہوگيا ""۔ (1)

بہرحال مربوط آيت انسانى شرافت اور اس كى عظمت ومقام كى زندہ اور واضح دليل ہے كہ اس كى تكميل خلقت كے بعد تمام ملائكہ كو حكم ملتا ہے كہ اس عظيم مخلوق كے سامنے سر تسليم خم كر دو، واقعا وہ شخص جو مقام خلافت الہى اور زمين پر خدا كى نمائندگى كا منصب حاصل كرے ،تمام ترتكامل وكمال پر فائز ہو اور بلند مرتبہ فرزندوں كى پرورش كا ذمہ دار ہو جن ميں انبياء اورخصوصا ًپيامبر اسلام (ص) اور ان كے جانشين شامل ہوں، ايسا انسان ہر قسم كے احترام كے لائق ہے ۔

ابليس نے مخالفت كيوں كي

ہم جانتے ہيں كہ لفظ ""شيطان ""اسم جنس ہے جس ميں پہلا شيطان اور ديگر تمام شيطان شامل ہيں ليكن ابليس مخصوص نام ہے، اور يہ اسى شيطان كى طرف اشارہ ہے جس نے حضرت آدم كو ورغلايا تھا وہ صريح آيات قرآن كے مطابق ملائكہ كى نوع سے نہيں تھا صرف ان كى صفوں ميں رہتا تھا وہ گروہ جن ميں سے تھا جو ايك مادى مخلوق ہے ۔ (2)

اس مخالفت كاسبب كبروغرور اور خاص تعصب تھا جو اس كى فكر پر مسلط تھا۔ وہ سوچتا تھا كہ ميں آدم سے بہتر ہوں لہذا آدم كو سجدہ كرنے كا حكم نہيں ديا جانا چاہئے بلكہ آدم كو سجدہ كرنا چاہئے اور اسے مسجود ہونا چاہئے۔

خدا نے ""ابليس""كى سركشى اور طغيانى كى وجہ اس كا مواخذہ كيا اور كہا:اس بات كا كيا سبب ہے كہ تو نے آدم كو سجدہ نہيں كيا اور ميرے فرمان كو نظر انداز كرديا ہے؟ (3)

اس نے جواب ميں ايك نادرست بہانے كا سہارا ليا اور كہا:""ميں اس سے بہتر ہوں كيونكہ تو نے مجھے آگ سے پيدا كيا ہے اور آدم كو آب و گل سے۔ (4)

گويا اسے خيال تھا كہ آگ،خاك سے بہتر و افضل ہے،يہ ابليس كى ايك بڑى غلط فہمى تھي،شايد اسے غلط فہمى بھى نہ تھى بلكہ جان بوجھ كر جھوٹ بول رہا تھا۔

ليكن شيطان كى داستان اسى جگہ ختم نہيں ہوتي،بلكہ اس نے جب يہ ديكھا كہ وہ درگاہ خداوندى سے نكال ديا گيا ہے او اس كى سركشى اور ہٹ دھرمى ميں اور اضافہ ہوگيا۔ چنانچہ اس نے بجائے شرمندگى اور توبہ كے اور بجائے اس كے كہ وہ خدا كى طرف پلٹے اور اپنى غلطى كا اعتراف كرے،اس نے خدا سے صرف اس بات كى درخواست كى كہ : ""خدايا مجھے رہتى دنيا تك كے لئے مہلت عطا فرمادے اور زندگى عطا كر""۔ (5)

اس كى يہ درخواست قبول ہوگئي اور اللہ تعالى نے فرمايا:""تجھے مہلت دى جاتى ہے""۔ (6)

اگرچہ قران ميں اس بات كى صراحت نہيں كى گئي كہ ابليس كى درخواست كس حدتك منظور ہوئي۔ارشاد ہوا: ""تجھ كو اس روز معين تك كے لئے مہلت دى گئي""۔(7)

يعنى اس كى پورى درخواست منظور نہيں ہوئي بلكہ جس مقدار ميں خدانے چاہا اتنى مہلت عطا كي۔

ليكن اس نے جو يہ مہلت حاصل كى وہ اس لئے نہيں تھى كہ اپنى غلطى كا تدارك كرے بلكہ اس نے اس طولانى عمر كے حاصل كرنے كا مقصد اس طرح بيان كيا:

""اب جبكہ تو نے مجھے گمراہ كرديا ہے،تو ميں بھى تيرے سيدھے راستے پر تاك لگا كر بيٹھوں گا(مورچہ بنائوں گا)اور ان(اولاد آدم)كو راستے سے ہٹا دوں گا،تاكہ جس طرح ميں گمراہ ہوا ہوں اسى طرح وہ بھى گمراہ ہوجائيں۔"" (8)

اس كے بعد شيطا ن نے اپنى بات كى مزيد تائيد و تاكيد كے لئے يوں كہا:""ميں نہ صرف يہ كہ ان كے راستہ پر اپنا مورچہ قائم كروں گا بلكہ ان كے سامنے سے،پيچھے سے،داھنى جانب سے،بائيںجانب سے گويا چاروں طرف سے ان كے پاس آئوں گا جس كے نتيجہ ميں تو ان كى اكثريت كو شكر گزار نہ پائے گا۔"" (9)  (10)

شروع ميں اس كا گناہ صرف يہ تھا كہ اس نے خدا كا حكم ماننے سے انكار كرديا تھا،اسى لئے اس كے خروج كا حكم صادر ہوا، اس كے بعد اس نے ايك اور بڑا گناہ يہ كيا كہ خدا كے سامنے بنى آدم كو بہكانے كا عہد كيا اور ايسى بات كہى گويا وہ خدا كو دھمكى دے رہا تھا،ظاہر ہے كہ اس سے بڑھ كر اور كونسا گناہ ہوسكتا ہے۔ لہذا خدا نے اس سے فرمايا:اس مقام سے بدترين ننگ و عار كے ساتھ نكل جا اور ذلت و خوارى كے ساتھ نيچے اتر جا۔

اور فرمايا:""ميں بھى قسم كھاتا ہوں كہ جو بھى تيرى پيروى كرے گا ميں جہنم كو تجھ سے اور اس سے بھردوں گا۔"" (11)

(12)

حوالہ جات :

(1) سورہ بقرہ آيت34

(2)سورہ كہف آيت 50 ميں ہے :""سب نے سجدہ كيا سوائے ابليس كے جو جنوں ميں سے تھا""

(3)سورہ اعراف آيت12

(4)سورہ اعراف آيت12

(5) سورہ اعراف آيت14

(6) سورہ اعراف ايت 15

(7) سورہ حجر آيت38

(8) سورہ اعراف آيت16

(9)سوہ اعراف آيت16

(10)مذكورہ بالا تعبير سے مراد يہ ہو سكتى كہ شيطان ہر طرف سے انسان كا محاصرہ كرے گا اور اسے گمراہ كرنے كے لئے ہر وسيلہ اختيار كرے گا اور يہ تعبير ہمارى روز مرہ كى گفتگو ميں بھى ملتى ہے جيسا كہ ہم كہتے ہيں كہ""فلاں شخص چاروں طرف سے قرض ميں يا مرض ميں گھر گيا ہے۔""

اوپر اور نيچے كا ذكر نہيں ہوا اس كى وجہ يہ ہے كہ انسان كى زيادہ تر اور عموماً فعاليت ان چار طرف ہوتى ہے۔

ليكن ايك روايت جو امام محمد باقر عليہ السلام سے وارد ہوئي ہے،اس ميں ان""چاروں جہت""كى ايك گہرى تفسير ملتى ہے اسميں ايك جگہ پر حضرت(ع) فرماتے ہيں: ""شيطان جو آگے سے آتا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ وہ آخرت كو جو انسان كے آگے ہے اس كى نظر ميں سبك كرديتا ہے،اور پيچھے سے آنے كے معنى يہ ہيں كہ;شيطان انسان كو مال جمع كرنے اور اولاد كى خاطر بخل كرنے كے لئے ورغلاتا ہے،اور""داہنى طرف""سے آنے كا يہ مطلب ہے كہ وہ انسان كے دل ميں شك و شبہ ڈال كر اس كے امور معنوى كو ضائع كرديتا ہے اور بائيں طر ف سے آنے سے مراد يہ ہے كہ شيطا ن انسان كى نگاہ ميں لذات مادى و شہوات دنيوى كو حسين بنا كر پيش كرتا ہے۔

(11)سورہ اعراف ايت 18

(12)سجدہ خدا كے لئے تھا ياآدم كے لئے ؟ اس ميں كوئي شك نہيں كہ ""سجدہ ""جس كا معنى عبادت وپرستش ہے صرف خدا كے لئے ہے كيونكہ عالم ميں خدا كے علاوہ كو ئي معبود نہيں اور توحيد عبادت كے معين يہى ہيں كہ خدا كے علاوہ كسى كى عبادت نہ كريں،لہذا اس ميں شك و شبہ نہيں كہ ملائكہ نے آدم كے لئے سجدہ عبادت نہيں كيا بلكہ يہ سجدہ خدا كے لئے تھا،ليكن اس عجيب و غريب مخلوق كى وجہ سے يايہ كہ سجدہ آدم كے لئے تھا ليكن وہ خضوع وتعظيم كا سجدہ تھا نہ كہ عبادت وپرستش كا۔

كتاب عيون الاخبارميں امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے اسى طرح كى روايت ہے جس ميں اپ نے فرمايا: ""فرشتوں كا سجدہ ايك طرف سے خدا كى عبادت تھى اور دوسرى طرف آدم كا اكرام واحترام كيونكہ ہم صلب آدم ميں موجود تھے ""

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى

ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري

پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم


متعلقہ تحریریں:

پریشانی کے وقت کفالت اور کام میں آسانی کی دعا

آخرت میں بخشش کی دعائیں

قرآنی دعائیں