• صارفین کی تعداد :
  • 8002
  • 7/2/2008
  • تاريخ :

سانحہ دوجولائی امریکہ کے سیاہ کارناموں کا ایک گھناو ناباب    

سانحہ دوجولائی ایران

دو جولائی کی تاريخ ایک ایسے دردنا ک اور تلخ  واقعے  کی  یاد  دلاتی  ہے جو انسانی حقوق اور انسانیت کا دم بھرنے والے امریکی حکمرانوں کی پیشانی پر بد نما داغ  بنا  ہواہے ، جی ہاں دو جولائی انیس اٹھاسی کو ایران کے جنوبی شہر بندرعباس سے دوبئی جانے والی اسلامی جمہوریہ  ایران کے ایک مسافر طیارے کو خلیج فارس میں  موجود  امریکہ کے بحری بیڑے کے ذریعہ مار گرائے جانے اور تین سو کے قریب بے گناہ مسافروں کے قتل عام کی دردنا ک برسی ہے ۔

 

 اپنے کو مہذب دنیا کا چمپئن کہنے والے امریکہ کے بحری بیڑے نے اپنی بربریت کے ذریعہ اس دن انسانیت کا خون کیا اورخلیج فارس کے نیلگوں پانی کو دو سو نوے سے زائد مسافروں کے خون سے رنگین کردیا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ انسانیت کا خون کرنے والے امریکی حکمرانوں نے انسانیت کو ایک بار پھر اس وقت منہ چڑھایا جب خلیج فارس میں موجود اس وقت کے امریکی بحری بیڑے کے سر براہ کو نشان جرات و شجاعت عطا کیا ۔

 

کیا دنیا میں ایسی کوئی مثال ہے کہ جس نے بے گناہ  مسافروں کا خون کیا ہو اسے اس کے اس سیاہ  کارنامے کی وجہ سے تمغہ شجاعت سے نوازا گیا ہو؟  یہ  ہے امریکی حکام  کی  تہذیب  اور ان  کا  انسانی  حقوق  کا  دعوی  ۔ اگر چہ اس سفا کا نہ واقعہ کو بیس سال کا عرصہ گذر چکا  ہے مگرخلیج فارس کی لہریں جواس دردناک واقعہ کی سب بڑی گواہ و شاہد ہیں  آج  بھی ان معصوم وبے گناہ مسافروں کی روحوں  کو یہ دلاسہ دے رہی ہیں کہ تاریخ وقت کے ظالم سے اپنا انتقام لے کر رہے گی اور ہر ظالم  کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا ۔

 

دو جولائی کو ہرسال ان بے گناہ مسافروں کے اہل خانہ خلیج فارس کے ساحلوں پر جاکر امریکہ کی انسانیت سوز اور سفاکانہ سوچ کی بھینٹ چڑھنے والوں کو  پھولوں اور یادوں کا نذرانہ پیش کرتے ہيں اورآج بھی یہی منظر دیکھنے کو ملا ۔مگر وقت  آج  بھی عالمی برادری اوربین الاقوامی اداروں سے یہی سوال کررہا ہے کہ کسی نے ابھی تک امریکہ سے اس کے اس بہیمانہ اقدام پراس سے وضاحت طلب کی ؟ کیا ضمیر مردہ  ہو چکے  ہيں  یا  پھر غیرت وجرات کا فقدان ہوچکا  ہے ؟  تو شاید آزاد ضمیر رکھنے والے انسانوں کا جواب یہی ہو کہ عالمی اداروں نے بڑی طاقتوں سے اپنے ضمیرکا سودا کرلیا  ہے  اور جب ضمیر کا سودا ہوجاتا ہے  تو غیرت کا خود بخود جنازہ  نکل جاتا  ہے ۔هم  اس حادثہ کے شہداء کے لئے بلندی  درجات کی دعا کرتے ہوئے امریکہ کے اس سفاکانہاور مجرمانہ اقدامات کی بھرپور مذمت کرتا ہے  اور یہ سوال کرتا ہے  بای ّ ذنب قتلت ؟اس سوال کا کوئی جواب دے یانہ دے مگرآوازقدرت آرہی ہے کہ سیعلموالذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون