• صارفین کی تعداد :
  • 4371
  • 12/25/2007
  • تاريخ :

حضرت ابوطالب(ع) كى قربانياں

دشت لاله

شيخ الابطح حضرت ابوطالب (ع) آنحضور (ص) کی حمایت اور حفاظت کے لئے ہر لحاظ سےآمادہ تھے كہ:

1) اپنى قوم كے درميان حاصل مقام و مرتبے كو خيرباد كہہ كر اہل مكہ بلكہ پورى دنيا كى دشمنى مول ليں، يہاں تك كہ انہوں نے اپنے حاميوں كے ہمراہ معاشرتى بائيكاٹ كو برداشت كيا ليكن كسى قسم كے دباؤ ميں نہ آئے_

2) نہ صرف فقر وفاقے اور معاشى بائيكاٹ برداشت كرنے پر راضى ہوں بلكہ اپنے پاس موجود دولت اور ہر چيز راہ خدا ميں پيش كرديں_

3) بوقت ضرورت ايك تباہ كن جنگ ميں كود پڑيں جو بنى ہاشم اور ان كے دشمنوں كى بربادى پر منتج ہوسكتى تھي

4) انہوں نے سب سے چھوٹے نور چشم حضرت علي (ع) كو راہ خدا ميں قربانى كيلئے پيش كيا، اور دوسرے بيٹے حضرت جعفر(ع) جنہوں نے حبشہ كو ہجرت كى تھى كى جدائي كا صدمہ برداشت كرليا_

5) حضرت ابوطالب (ع) اپنى زبان اور ہاتھ دونوں سے مصروف جہاد رہے اور ہر قسم كے مادى ومعنوى وسائل كو استعمال كرنے سے دريغ نہ كيا _ہر قسم كى تكاليف و مشكلات سے بے پروا ہوكر حتى المقدور دين محمد(ص) كى حفاظت و حمايت ميں مصروف رہے_

يہاں يہ سوال پيدا ہوسكتا ہے كہ حضرت ابوطالب نے جو كچھ كيا وہ ممكن ہے جذبات يا نسلى و خاندانى تعصب كا نتيجہ ہو يا بالفاظ ديگر آپ كى فطرى محبت كا تقاضا ہو؟_ (1) ليكن اس كا جواب يہ ہے كہ ايسا كبھى نہيں ہوسكتا كيونكہ ايك طرف حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر قطعى دلائل خاص كر ان كے اشعار و غيرہ اور حضرت رسول (ص) اكرم اور ديگر ائمہ كى ان كے متعلق احاديث موجود ہيں اور دوسرى طرف جس طرح حضرت محمد(ص) ان كے بھتيجے تھے اس طرح حضرت علي(ع) ان كے بيٹے تھے اگر رشتہ دارى كا جذبہ كارفرما ہوتا تو وہ كيونكر بيٹے كو بھتيجے پر قربان كرتے؟ وہ بھى اپنى مرضى سے نيز اس كے انجام كے بارے ميں غوروفكر اور تا مل و تدبر كے بعد؟ انہيں بھتيجے كى بجائے بيٹے كا قتل ہوجانا كيونكر منظور ہوا؟ كيا يہ معقول ہے كہ اپنے بيٹے اور جگر گوشے كے مقابلے ميں بھتيجے كى محبت فطرى طور پر بيشتر ہو؟

اسى طرح اگر قومى يا خاندانى تعصب كارفرما ہوتا تو پھر ابولہب لعنة اللہ عليہ نے اس جذبے كے تحت وہ موقف كيوں اختيارنہيں كيا جو حضرت ابوطالب نے اختيار كيا اور حضرت ابوطالب كى طرح رسول (ص) اللہ كى حمايت كيوں نہيں كي؟ نيز اپنے بيٹے، اپنى حيثيت اور ديگر چيزوں كى قربانى كيوں نہيں پيش كي؟ بلكہ ہم نے تو اس كے برعكس ديكھا كہ ابولہب نبى كريم (ص) كا سخت ترين دشمن، آپ (ص) كى مخالفت ميں پيش پيش اور آپ (ص) كو اذيت دينے ميں سب سے آگے تھا_

رہے بنى ہاشم كے ديگر افراد تو اگرچہ وہ رسول(ص) اللہ كے ساتھ شعب ابوطالب ميں داخل ہوئے ليكن رسول (ص) اللہ كيلئے انكى قربانياں ابوطالب كى قربانيوں كا دسواں حصہ بھى نہ تھيں_ نيز ان كا يہ اقدام بھى حضرت ابوطالب كے اثر و نفوذ اور اصرار كا مرہون منت تھا_

يوں واضح ہوا كہ مرد مسلمان كا دينى جذبہ قومى يا خاندانى جذبات كے مقابلے ميں زيادہ طاقتور ہوتا ہے_ اسى لئے ہم تاريخ ميں بعض مسلمانوں كو واضح طور پر يہ كہتے ہوئے ديكھتے ہيں كہ وہ راہ خدا ميں اپنے آباء اور اولاد كو قتل كرنے كيلئے بھى تيار ہيں_ چنانچہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابى نے رسول(ص) اللہ سے اپنے باپ (عبداللہ بن ابي) كو قتل كرنے كى اجازت مانگي (2) _ نيز جنگ صفين ميں بھائي نے بھائي كو نہ چھوڑا جب تك كہ اميرالمؤمنين (ع) نے چھوڑنے كى اجازت نہ دي (3) _ان كے علاوہ بھى تاريخ اسلام ميں متعدد مثاليں ملتى ہيں_

ان باتوں سے قطع نظر اس بات كى طرف اشارہ بھى ضرورى ہے كہ اگر حضرت ابوطالب كا موقف دنيوى اغراض پر مبنى ہوتا تو اس كا تقاضا يہ تھا كہ وہ اپنے بيٹے كى بجائے بھتيجے كو قربان كرتے _نيز بھتيجے كو اپنے خاندان پر قربان كرتے _نہ كہ خاندان كو ايك بھتيجے پر _كيونكہ دنيا كا معقول طريقہ يہى ہوتاہے جيساكہ خليفہ مامون نے اپنے بھائي امين كو قتل كيا اور ام ہادى نے اپنے بيٹے كو زہر ديا _ليكن حضرت ابوطالب نے تو ہر چيز كو بھتيجے پر قربان كرديا اور يہ دنيوى مفادات كے حصول كا منطقى اور معقول طريقہ ہرگز نہيں ہوسكتا_

اسى طرح اگر بات قبائلى تعصب كى ہوتى تو اس تعصب كا اثر قبيلے كے مفادات كے دائرے ميں ہوتا_ ليكن اگر يہى تعصب اس قبيلے كى بربادى نيز اس كے مفادات يا مستقبل كو خطرات ميں جھونكنے اور تباہ كرنے كا باعث بنتا تو پھر اس تعصب كى كوئي گنجائشے نہ ہوتى اور نہ عقلاء كے نزديك اس كا كوئي نتيجہ ہوتا_

مختصر يہ كہ ہم حضرت ابوطالب (ع) كى مذكورہ پاليسيوں اور حكمت عملى كے بارے ميں اس كے علاوہ كچھ نہيں كہہ سكتے كہ يہ پاليسياں عقيدے اور ايمان راسخ كى بنيادوں پر استوار تھيں جن كے باعث انسان كے اندر قربانى اور فداكارى كا جذبہ پيدا ہوتا ہے_

خدا كا سلام ہو آپپر اے ابوطالب (ع) اے عظيم انسانوں كے باپ اے حق اور دين كى راہ ميں قربانى پيش كرنے والے كاروان كے سالار خدا كى رحمتيں اور بركتيں آپ پر نازل ہوں_

1- تفسير ابن كثير ج 3ص 39

2- تفسير صافى ج5 ص 180 ، السيرة الحلبيہ ج2 ص 64 ، الدرالمنثور ج6 ،ص 24 از عبد بن حميد و ابن منذر اور الاصابہ ج2 ص 336_

3- صفين (المنقري) ص 271 و 272_