• صارفین کی تعداد :
  • 5366
  • 1/2/2008
  • تاريخ :

جوانی اور جذبات کا ظھور

 

رز صورتی

شادی

پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد ہے :

 اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی قدرت رکھتے ھو تو شادی کرو کیونکہ شادی آنکھ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ہے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ہے (۱)

جوانی اور جذبات کا ظھور

بلوغ کی بھار اور جوانی کے پھول کھلنے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کے ذھن میں جنس مخالف کی طرف ایک پر اسرار کشش محسوس ھوتی ہے۔ جیسے جیسے قوتیں ظاھر ھوتی رھتی ھیں ویسے ویسے یہ کشش طاقتور ھوتی جاتی ہے اور آخر میں شدید تقاضے کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ یہ وھی فطری تقاضا ہے جس کو جنسی کشش کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

جسم و روح پر جنسی کشش کا اثر

یہ جاننا چاھئیے کہ :

(۱) یہ کشش صرف لذت کے لئے نھیں ہے بلکہ خدا وند عالم نے اپنی حکمت کی بنا پر اس کو بقائے نسل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر یہ کشش انسان میں نہ ھوتی تو وہ ھرگز شادی کے لئے تیار نہ ھوتا جس کی بنا پر نسل انسانی نیست و نابود ھو جاتی ۔یھی کشش مرد و عورت کو اس بات پرآمادہ کرتی ہے کہ وہ شادی کی زحمتوں کو برداشت کریں اور ذمہ داریاں قبول کریں ۔

(۲) جنسی کشش ایک فطری تقاضا ہے اگر صحیح طور سے اس کا جواب نہ دیا جائے تو ھو سکتا ہے کہ جسم اور روح پر منفی اثرات مرتب ھوں اور انسان کو اعتدال کی حد سے خارج کر دیں ۔ خاص کر اس زمانے میں جبکہ ھر طرف سے ایسے وسائل مھیہ کئے جا رہے ھیں جن سے اس کشش کو بڑھا و امل رھا ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ھوتا چلا جارھا ہے ۔

اس کشش کی اھمیت کو پیش نظر رکھتے ھوئے ضروری ہے کہ ھم صحیح راستے کا انتخاب کریں تاکہ انسان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارتقائی منزلیں طے کر سکے ۔یہ بات مسلم ہے کہ اس فطری تقاضے سے صرف نظر نھیں کیا جا سکتا اور نہ اس سلسلہ میں بے توجھی برتی جا سکتی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کو مکمل آزادی بھی نھیں دی جا سکتی کیونکہ اس صورت میں فرد اور معاشرہ دونوں ھی راہ سے منحرف ھو جائیں گے اور اخلاقی لحاظ سے نھایت پست ھو جائیں گے ۔ اس فطری تقاضے کا صحیح جواب شادی ہے ۔

 بعض لوگوں کا خیال غلط ہے کہ اس کشش کو بالکل دبا دیا جائے اور ھمیشہ کنوارا رھا جائے ان لوگوں کے نزدیک کنوارا رھنا فضیلت کی بات ہے ۔

اسلام نے اس خیال کو پسند نھیں کیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ شادی کے سائے میں اس فطری تقاضے کو پورا کریں ۔ اولاد کی تربیت اور رونما ھونے والی مشکلات کو برداشت کرتے ھوئے اپنی روحانی اور معنوی منازل کی تکمیل کریں۔ اسی بنا پر اسلام نے شادی سے فرار اور کنوارارھنے کو اچھا نھیں سمجھا ہے بلکہ شادی کو لازم اور مستحب قرار دیا ہے ۔(۲)

اس بنا پر عیسائیت کا یہ نظریہ کہ شادی نہ کرنا فضیلت کی بات ہے قرآن اور اسلام کی نظر میں کوئی اھمیت نھیں رکھتا ۔

کیتھولک فرقے میں ایک ایسا ” دینی گروہ “ ہے جو بخیال خود تقویٰ اور پاکیزگی کی منزلوں تک پھونچنے کے لئے جنسی لذت سے کنارہ کش رھتا ہے ۔

مغربی گرجاگھروں میں پادری مرد و عورت کنوارے رھنے کی نذر کرتے ھیں۔ مغربی گر جا گھر وں میں تقریباً انھیں لوگوں کو پادری منتخب کیا جاتا ہے جو کنوارے ھوں اور اس منصب پر پھونچنے کے بعد انھیں یہ حق نھیںہے کہ وہ شادی کر لیں اور اگر پھلے سے شادی شدہ ھیں تو زوجہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی نھیں کر سکتے ۔یہ افراد کس حد تک کنوارے رھتے ھیں اور تقویٰ و پرھیزگاری کی کس منزل پر فائز ھیں اور اس گروہ نے کیا کیا تباھی اور گندگی پھیلائی ہے یہ وہ موضوع ہے جس کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں ہے اور اس وقت ھماری بحث سے خارج بھی ہے ۔ 

ھم تو اتنا کھنا چاھتے ھیں کہ دین اسلام خدا ترسی اور تقویٰ و پرھیز گاری کی عظیم منزل پر فائز ھونے کے لئے با شرائط، شادی کو رکاوٹ نھیں تصور کرتا بلکہ اسلام یہ چاھتا ہے کہ مسلمان شادی کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ھوئے روحانی اور معنوی فضیلتوں کو حاصل کرے ۔

 

رز صورتی

تسکین خواھشات اور شدت پسند افراد

فرایڈ اور اس کے ھم فکروں نے اس سلسلے میں افراط کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس سلسلے میں سماج کے لئے مکمل آزادی جس میں کوئی قید و شرط نہ ھو کو تجویز کیا ہے ۔ یہ لوگ یا تو اس حقیقت سے ناواقف ھیں کہ افراط کی صورت میں یہ جنسی کشش کیا کیا بر بادی اور تباھی پھیلاتی ہے یا یہ لوگ جان بوجہ کر قوموں کو زھردلوانے اور جوانوں کو تباہ و برباد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ھیں ۔

صیھونی رھبروں نے عالمی یھودی سیاست کی تفصیل کے سلسلے میں یہ تصریح کی ہے :

” ھم پرلازم ہے کہ جھاں تک ھو سکے اخلاقیات کو برباد کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ قدرت حاصل کی جا سکے ۔ فرایڈھم میں سے ہے وہ برابر جنسی مطالب کی نشر و اشاعت کر رھا ہے تاکہ جوانوں کی نظر میں کسی چیز کا تقدس باقی نہ رہ جائے ان کو بس ایک ھی فکر ھو کہ کسی طرح اپنی جنسی خواھش کو پورا کیا جائے اور آخر کار اپنی انسانیت سے ھاتہ دھو بیٹھیں “ (۳)

جو لوگ فرایڈ کی پیروی کرتے ھیں ان کا یہ خیال درست نھیں ہے کہ جنسی کشش کو کھلی آزادی دینے سے اس کشش کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے ۔ ان لوگوں نے صرف اتنا دیکھا ہے کہ اس کشش پر بے جا پابندیوں سے خراب نتائج بر آمد ھوتے ھیں لھذا اس سلسلے میں اس بات کے قائل ھیں کہ جنسی کشش کے سلسلے میں عورت اور مرد کو کھلی چھوٹ دے دینا چاھئے لیکن یہ لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ نھیں ھیں کہ جس طرح بے جا پابندیوں سے خراب نتائج بر آمد ھوتے ھیں اسی طرح کھلی چھوٹ خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کو اس وقت کے مغربی و مشرقی ممالک کے معاشرہ میں باقاعدہ دیکھا جا سکتا ہے ۔

کبھی ایسا بھی ھوتا ہے کہ وہ افراد جو بے قید و شرط آزادی کے خواھاں ھیں جب ان کی ساری خواھشیں پوری نھیں ھوتی ھیں تو ان پر اس کا الٹا اثر ھوتا ہے اور ان کے دل کینہ و کدورت سے بھر جاتے ھیں اگر اس فطری تقاضے کو قابو میں رکھنا چاھتے ھیں اور اسے صحیح طور سے حاصل کرنا چاھتے ھیں تو ضروری ہے کہ اس کو کھلی آزادی نہ دی جائے اور اس کو افراط کی حدود سے محفوظ رکھا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے

۱۔مستدرک الوسائل ج۲ ص ۵۳۱ حدیث ۲۱

۲۔جواھر الکلام ،حدائق ، عروة الوثقی

۳۔کتاب آسمانی کدام است ص۲