• صارفین کی تعداد :
  • 5873
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

”فطرت“ قرآن ميں

قرآن

قرآن مجيد ميں ”فطر“ کے مشتقات مختلف طريقے سے استعمال ھوئے ھيں۔ مثلاً ”فطرالسموات والارض“ ،”فطرکم اول مرة“،فطرنا ، فطرني ،  فاطر السموات والارض  يھاں قرآن کي مراد پيدا کرنے اور خلق کرنے سے ھے۔ لفظ ”فطور“ آيت ”فارجع البصر ھل تريٰ من فطور“ ميں شگاف اور سوراخ کے معني ميں ھے اور لفظ ”منفطر“ آيت ”السماء منفطر بہ“ ميں شکافتہ کے معني ميں ليکن قرآن کريم ميں لفظ فطرت صرف ايک مرتبہ استعمال ھوا ھے اور وہ بھي لفظ الله کے ساتھ ”فطرة الله“ ۔انسان کے ساتھ لفظ فطرت اس طرح آيا ھے: ”فطرالناس عليھا

 

فطرت الٰھي انسان

کوئي بھي مکتب ھو ، اگر وہ انساني ھدايت وکمال اور سعادت ابدي کا دعوي کرتا ھے تو لازمي طور پر انسان کي ايک مخصوص تعريف اور حدود اربعہ بھي بيان کرتا ھے۔ اسي بنا پر انسان کے بارے ميں جيسي اس مکتب کي شناخت ھوتي ھے ويسا ھي اس کي سعادت کاراستہ اور وسيلہ بھي معين کرتا ھے۔

مکتب الٰھي ميں بھي انسان کے بارے ميں کافي کچھ کھا گيا ھے ، قرآن ميں بھي اور روايات معصومين عليھم السلام ميں بھي کہ جن کے تمام جوانب پر تبصرہ کرنے کے لئے نہ جانے کتني صخيم کتابوں کي ضرورت پڑے گي۔

انسان کے بارے ميںاسلامي نقطہٴ نظر کو بيان کرنے والابھترين لفظ ”فطرت“ ھے۔ لھٰذا انسان کے بارے ميں اسلام کي بيان کردہ تعريف کو ”نظريہٴ فطرت“ کا عنوان بھي ديا جاسکتا ھے۔

 

نظريہٴ فطرت،اجمالي طور پر

اس نظريے کے مطابق:

(۱) ھر انسان اپني اپني خلقت اور طينت اوليہ کي بنياد پر ايک مخصوص حدود اربعہ کا حامل ھوتا ھے اور ساتھ ھي ساتھ کچھ ايسي مخصوص صفات اس کي ذات سے مربوط ھوتي ھيں جواس پر خارج از ذات حمل نھيں ھوتيں بلکہ درحقيقت يہ تمام صفات اس کي ذات کا خاصہ ھوتي ھيں۔

دوسرے الفاظ ميں، انسان ايک ايسا کورا کاغذ نھيں ھے کہ اس پر کچھ بھي يکساں طور پر لکہ ديا جائے اور وہ اسے قبول کرلے بلکہ انسان کا باطن اور ضمير کچھ مخصوص تمايلات اور اوصاف کے خمير سے خلق ھوا ھے۔

 

(2) وجود انسان ميں پائے جانے والے تمايلات ميں سے بعض اس کے حيواني جنبہ سے اور بعض انساني جنبہ سے مربوط ھيں۔ فطرت الٰھي انسان کے فقط ان تمايلات اور رغبتوں سے مربوط ھے جو اس کے انساني جنبہ سے مخصوص ھيں نہ کہ اس جنبہ سے جوانسان وحيوان ميں مشترک ھے مانند غريزہٴ جنسي۔

 

(۳) يہ تمايلات وغرائز اس کودوسرے حيوانات سے جدا کرکے ديگر تمام حيوانات سے ممتاز درجہ عطا کرتے ھيں۔ اگر کوئي شخص مکمل طور پر ان تمايلات واوصاف سے بے بھرہ ھوجائے تو بظاھر تو وہ انساني شکل و صورت اختيار کئے ھوئے ھوگا ليکن درحقيقت حيوان ھوگا۔

 

 (۴) يہ تمام تمايلات واوصاف نوع انسان سے مربوط ھيں لھٰذا اس نوع کے تمام افراد ميں مشترک اور سب ميںپائے جاتے ھيں يعني ايسا نھيں ھے کہ کسي خاص زمان يا مکان سے مربوط ھوں يا کسي مخصوص معاشرے، قوم يا نسل سے بلکہ ھر زمانے اور ھرجگہ کے افراد ان اوصاف سے مستفيد ھوتے ھيں۔

 

(۵)  يہ تمام اوصاف وتمايلات جنبہٴ قوة واستعداد رکھتے ھيں يعني انساني وجود ميں پائے تو جاتے ھيں ليکن انھيں بارور ھونے اور ظاھر و بالفعل ھونے کے لئے انساني کوشش و سعي درکار ھے۔

 

 (۶) اگر انسان فطري امور کو اپنے اندر بارور اور اجاگر کرلے تو تمام مخلوقات حتي فرشتوں سے بھي بالاتر مقام حاصل کرلے گا۔ ساتھ ھي اپنے کمال کے اعليٰ ترين مراتب کو بھي طے کر لے گا اور اگر يہ صفات پژمردہ ھوگئے تو اپنے اندر فطرت انساني کے بجائے حيواني صفات و تمايلات کا ذخيرہ کرلےگا جس کا نتيجہ يہ ھوگا کہ وہ تمام مخلوقات سے پست ھو جائے گا اور جھنم کے آخري مراتب کو اپنا مقدر بنالے گا۔

 

(۷) جيسا کہ اشارہ کيا جا چکا ھے ، انساني فطرت، بعض ادراک وشناخت اور بعض تمايل ورغبت کے مقولوں کامجموعہ ھے۔ منطق ميں  بديھيات اوليہ سے جوکچھ مراد لياجاتا ھے وہ فطري شناخت ھي کا ايک جزء ھے اور حقيقت طلبي، عزت طلبي، حسن پرستي جيسے تمام امور،انساني تمايلات فطري کے ذيل ميں آتے ھيں۔ “