• صارفین کی تعداد :
  • 4449
  • 9/14/2009
  • تاريخ :

شادى كا مقصد (حصّہ دوّم )

شادی

انسان اس دنيا ميں اس لئے نہيں آيا ہے كہ وہ ايك مدت تك كھائے ، پيئے ، سوئے ، عيش كرے ، لذتيں اٹھائے اور پھر مرجائے اور نابود ہوجائے ۔ انسان كا مرتبہ ان تمام باتوں سے كہيں اعلى اورارفع ہے ۔ انسان اس دنيا ميں اس لئے آيا ہے تاكہ علم عمل اور اعلى اخلاق كے ذريعہ اپنے نفس كى تربيت كرے اور انسانيت كى راہ مستقيم اور كمال كے مدراج كو طے كرے اور اس طرح پروردگار عالم كے قرب حاصل كرسكے ۔

انسان ايك ايسى اعلى و برتر مخلوق ہے جو تہذيب و تزكيہ نفس كے ذريعہ برائيوں سے اجتناب كركے اپنے فضائل اور بلند اخلاق نيز نيك كام انجام دے كر ايسے ارفع مقام پر پہونچ سكتا ہے جہاں فرشتوں كى بھى رسائي ممكن نہيں ۔

انسان ايك جاودان مخلوق ہے اور اس دنيا ميں اس كے آنے كا مقصد يہ ہے كہ پيغمبروں كى ہدايت و رہنمائي كے ذريعہ دين كے اصول و قوانين كے مطابق عمل كرے اپنے لئے دين و دنيا كى سعادت فراہم كرے اور جہان آخرت ميں پروردگار عالم كى رحمت كے سائے ميں خوشى و آرام كے ساتھ ابدى زندگى گزارے لہذا انسان كى ازدواجى زندگى كے اصل مقصد كو اسى پس منظر ميں تلاش كرنا چاہئے ۔ ايك ديندار انسان كے نزديك شادى كا اصل مقصد يہ ہے كہ وہ اپنے شريك زندگى كے اشتراك و تعاون سے اپنے نفس كو گناہوں ، برائيوں اور بداخلاقيوں سے محفوظ ركھے اور صالح اعمال اور نيك و پسنديدہ اخلاق و كردار كے ساتھ اپنے نفس كى تربيت كرتے تاكہ انسانيت كے بلند مقام پر پہونچ جائے اور خدا كا تقرب حاصل كرلے ۔ اور ايسے اعلى مقصد كے حصول كے لئے شائستہ ، نيك اور موزوں شريك زندگى كى ضرورت ہوتى ہے ۔

دو مومن انسان جو شادى كے ذريعہ خاندان كى تشكيل كرتے ہيں انس و محبت كے سائے ميں سكون و اطمينان كے ساتھ اپنى جائز خواہشات سے بہرہ مند ہوسكتے ہيں اور اس طرح ناجائز تعلقات قائم كرنے ، فساد وتباہى كے مراكز كا رخ كرنے نيز خاندانوں كو تباہ كردينے والى شب باشيوں كے شر سے محفوظ ركھنے كے اسباب مہيا كئے جا سكتے ہيں ۔

يہى سبب ہے كہ پيغمبر اكرم اورائمہ اطہار عليہم السلام نے ازدوج يعنى شادى پر بہت زيادہ تاكيد فرمائي ہے ۔ رسول خدا صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں : جو شخص شادى كرتا ہے اپنے آدھے دين كى حفاظت كے اسباب مہيا كرليتا ہے ۔ (1)

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : شادى شدہ انسان كى دو ركعت نماز ، غير شادى شدہ انسان كى ستر ركعت كى نمازوں سے زيادہ افضل ہے ۔ (2)

ديندار اور مناسب شريك زندگى (خواہ مرد ہو يا عورت) كا وجود ، فرائض كى ادائيگى اور واجبات و مستحبات پر عمل كرنے نيز محرمات و مكروہات سے اجتناب كرنے ، نيكيوں كو اختيار كرنے اور برائيوں سے پرہيز كرنے كے سلسلہ ميں بہت اہم كردار ادا كرتا ہے ۔

اگر شوہر و بيوى دونوں ديندار ہوں اور تزكيہ نفس سے بہرہ مند ہوں تو اس دشوار گزار راہ كو طے كرنے ميں نہ صرف يہ كہ كوئي ركاوٹ نہيں ہوگى بلكہ ايك دوسرے كے معاون و مددگار ثابت ہوں گے ۔

 خدا كى راہ ميں جہاد كرنے والا ايك سپاہى كيا اپنى شريك زندگى كے تعاون اور رضامندى كے بغير ميدان جنگ ميں اچھى طرف لڑسكتا ہے اور دليرانہ كارنامے انجام دے سكتا ہے ؟ كيا كوئي انسان اپنى شريك حيات كى موافقت كے بغير روزى ، علم اور مال و دولت كے حصول ميں تمام شرعى اوراخلاقى پہلوؤں كا لحاظ ركھ سكتا ہے ؟ اسراف اور فضول خرچيوں سے بچ سكتا ہے؟ اپنے ضرورى اخراجات كے علاوہ رقم كو نيك كاموں ميںخرچ كرسكتا ہے؟

مومن اور ديندار شريك زندگى اپنے ساتھى كو نيكى اور اچھائيوں كى ترغيب دلاتے ہيں اور لاابالى اور بداخلاق، اپنے شريك زندگى كو برائيوں اور بداخلاقيوں كى طرف راغب كرتے ہيں ۔ اور انسانيت كے مقدس مقصد سے دور كرديتے ہيں ۔ اسى سبب سے مرد اور عورت دونوں كے لئے كہا گيا ہے كہ شريك حيات كے انتخاب كے وقت ، ايمان، ديندارى اور اخلاق كو بنيادى شرط قرار ديں ۔

حوالہ جات :

1- وسائل الشيعہ ج 14 ص 5

2- وسائل الشيعہ ج 14 ص 6

 

نام كتاب ازدواجى زندگے كے اصول يا خاندان كا اخلاق
مصنّف  حجة الاسلام و المسلمين ابراہيم اميني
ترجمہ  محترمہ عندليب زہرا كامون پوري
كتابت  سيد قلبى حسين رضوى كشميري
ناشر  سازمان تبليغات اسلامى روابط بين الملل _ تہران_ اسلامى جمہوريہ ايران پوسٹ بكس 1313 14155
تہيہ و تنظيم  شعبہ اردو_ سازمان تبليغات اسلامي
تاريخ  جمادى الثانى سنہ 1410 ھ

 


متعلقہ تحریریں:

اس مسئلے كا حل

اسلام میں شادی بیاہ

شریک حیات کا انتخاب

شادی کیلئے مناسب عمر