• صارفین کی تعداد :
  • 2482
  • 12/1/2012
  • تاريخ :

قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کي بات کي ہے

 

قرآن حکیم

قرآن فھمي

شايد آپ جانتے ہوں کہ تفکر اور تذکر کے مابين فرق ہے- تفکر اس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان کسي مسئلے کو بالکل ہي نہ جانتا ہو، اسے سرے سے ہي نہ جانتا ہو اور وہ مسئلہ اسے سمجھا ديا جائے- قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کي بات کي ہے- تذکر ان مسائل ميں ہے جن مسائل کے صحيح ہونے کو انسان کي فطرت جانتي ہو ليکن اسے ياد اور توجہ دلانے کي ضرورت ہو- قرآن کو خصوصاً ’’تذکر‘‘ کے عنوان سے بيان کرتا ہے- شايد اس سے انسان کا احترام مقصود ہے- ہم تمہيں ان مسائل کي جانب متوجہ کرتے ہيں، يعني يہ ايسے مسائل ہيں کہ اگر آپ خود بھي غور کريں تو انہيں سمجھ ليں گے- ليکن ہم آپ کو ياد دلاتے ہيں اور ان کي جانب متوجہ کرتے ہيں-

بعد والي آيت فحشاء يعني زنا کي سزا سے متعلق ہے- خدا کا فرمان ہے-

اَلزَّانِيَۃ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَارَاْفَۃ فِيْ دِيْنِ اللّہَِ اِنْ کُنْتُمْ تُۆمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفۃ مِّنَ الْمُۆمِنِيْنَ-‘‘ (سُورۂ نُور، آيت 2)

ان آيات ميں تين مطالب بيان کئے گئے ہيں- اول يہ کہ جو بھي زنا کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت، اسے سزا ملے گي اور اس کي سزا قرآن نے ’’ايک سو کوڑے‘‘ معين کر دي ہے- سو کوڑے زاني مرد اور سو کوڑے زنا کرنے والي عورت کو مارے جانے چاہئيں-

دوم يہ کہ مومنين کو آگاہ کر رہا ہے کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ سزا کے وقت تم پر احساسات غالب آ جايں- مباوا تمہيں ان پر رحم آئے اور تم کہو کہ سو کوڑے لگنے سے انہيں تکليف پہنچے گي، لہٰذا انہيں پوري سزا نہ دي جائے- کيونکہ يہ ترس کھانے کا مقام نہيں ہے قرآن کہتا ہے کہيں ايسا نہ ہو کہ تم پر جذبات غالب آ جائيں اور تم اللہ کي اس حد کو جاري کرنے ميں سستي سے کام لينے لگو- عصرِ حاضر کي اصطلاح کے مطابق تم يہ نہ سمجھو کہ يہ ايک ’’غيرانساني‘‘ کام ہے- نہيں، بلکہ يہ ايک ’’انساني‘‘ عمل ہے-

سوم يہ کہ سزا مخفيانہ طور پر نہ دي جائے کيونکہ اس سزا کا مقصد يہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑيں- مومنين کا ايک گروہ سزا کے وقت لازمي طور پر حاضر و ناظر ہونا چاہئے جو اسے ديکھے-

اس سے مراد يہ ہے کہ جب اس حکم کو نافذ کيا جائے تو اسے اس طور پر نافذ کرنا چاہئے کہ تمام لوگوں کو پتہ چل جائے کہ فلاں عورت يا فلاں مرد پر زنا کي حد جاري ہوئي ہے- اس حکم کو مخفي طور پر نہيں بلکہ اعلانيہ طور پر نافذ کرنا چاہئے-

اب ہم پہلے مطلب کے متعلق چند باتيں بيان کرتے ہيں جو زنا کي سزا کے حکم کے بارے ميں ہے- ايک تو يہ ہے کہ زنا کي سزا کي وجہ کيا ہے؟ اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کريں جن ميں اس موضوع کے متعلق بحث کي گئي ہے تو آپ ديکھيں گے گے کہ وہ لوگ يوں اظہار خيال کرتے ہيں کہ زنا کي سزا دينے کي وجہ… ان کي اصطلاح ميں…’’مرد کي حکمراني‘‘ ہے-

جن زمانوں ميں مرد کو خاندان کا حاکم سمجھا جاتا رہا، يعني مرد گھر کا مالک ہوتا جبکہ عورت کو کوئي حق حاصل نہ ہوتا- وہ مرد کے پاس بہرہ برداري کا ايک ذريعہ سمجھي جاتي- مرد اپنے آپ کو بيوي کا مالک جانتا تھا- جب کوئي عورت زنا کرتي تو اس کا شوہر يہ سمجھتا کہ اس نے ايک ايسي چيز دوسرے مرد کي تحويل ميں دي ہے جو اس کا حق تھا- پس اس بناء پر زنا کي سزا برقرار ہوئي- واضح سي بات ہے کہ اسلامي قانون کي رو سے يہ ايک بے بنياد اور من گھڑت بات ہے- اسلام ميں زنا کي سزا عورت کے ساتھ مختص نہيں ہے، مرد کو بھي اپنے کئے کي سزا ملني چاہئے اور عورت کو بھي- ’’اَلزَّانِيۃَ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃ-‘‘ صراحت کے ساتھ يہ آيت بيان کر رہي ہے کہ زناکار مرد اور زناکار عورت دونوں کو سزا ملني چاہئے- اگر مرد کو زنا سے نہ روکا گيا ہوتا اور فقط عورت کو روکا گيا ہوتا- شايد دنيا کے بعض علاقوں ميں ايسے قوانين موجود تھے جن کي رو سے فقط عورت کو زنا کرنے کا حق حاصل نہيں تھا…تو اس صورت ميں کہا جا سکتا ہے کہ زنا کي سزا کي وجہ ’’مرد کي حکمراني‘‘ ہے- ليکن اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو زنا سے منع کيا ہے- اس کا مطلب يہ ہے کہ مرد اپني نفساني خواہشات کو فقط شادي کے ذريعے ہي پورا کر سکتا ہے- شادي نام ہے بعض فرائض کے ادائيگي کے پابند ہونے اور ذمہ داريوں کو سنبھالنے ک - عورت بھي اپني جنسي خواہش کو فقط شادي کے ذريعے ہي پورا کر سکتي ہے، البتہ بعض فرائض کي ادائيگي کي پابندي اور بعض ذمہ دارياں سنبھالنے کے ساتھ- پس مرد کو شادي کے بغير اپني جنسي جبلت کو پورا کرنے کا حق حاصل نہيں ہے، اور عورت کو بھي ايسا کوئي حق حاصل نہيں ہے- بنا بريں زنا کے حرام ہونے کا مسئلہ عورت کے ساتھ مختص نہيں ہے بلکہ عورت اور مرد دونوں پر يکساں طور پر حرام ہے-

مصنف کا نام : مرتضي مطہري

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان