• صارفین کی تعداد :
  • 3385
  • 10/27/2012
  • تاريخ :

خواتين کا تحفظ : سماج اور قانون

خواتین کا تحفظ

خواتين کي آزادي ، خواتين کے حقوق اور خواتين کي بہبود کے بلند بانگ دعووں والے اس زمانے ميں خواتين کے خلاف جرائم بجائے گھٹنے کے بڑھتے ہي جا رہے ہيں - عصمت دري، جنسي بليک ميلنگ چھيڑ چھاڑ اور خانگي تشدد معمول کي باتيں بن گئي ہيں اور عام لو گ ان باتوں کے گويا عادي ہوتے جا رہے ہيں -چنانچہ ا س صورت حال پر بے چيني يا پريشاني کي کوئي خاص کيفيت معاشرتي سطح پر نہيں ديکھي جا رہي ہے- يہ بجائے خود ايک تشويشناک بات ہے، کيوں کہ برائي اور جرائم کے خلاف رد عمل کي سطح جتني کم ہو گي اتنا ہي ان ميں اضافہ ہو گا اور ہم روشن خيالي ، جديديت اور ترقي پسندي کے تمام دعووں کے باوجود معاشرتي انحطاط کي طرف جاتے رہيں گے-

گزشتہ دنوں شري رام سينا کے غنڈوں نے ايک پب پر حملہ کر کے وہاں موجود عورتوں اور لڑکيوں کي پٹائي کي تو اس معاملہ کا تو بڑا نوٹس ليا گيا- ہر سطح پر اس کا رد عمل ہوا- ليکن ايسا رد عمل کسي خاتون کي عصمت دري ، اس کے جنسي استحصال يا اس کے ساتھ چھيڑ چھاڑ کرنے جيسے، جسماني، ذہني اور جذباتي طور پر تکليف دہ واقعات پر ديکھنے ميں نہيں آتا- خبر اگر بنتي بھي ہے تو معاملے کي سنسني خيزي کے پہلو سے اہم سمجھي جاتي ہے يا ٹي آر پي اور ريڈر شب کي سطح کو اوپر لے جانے کے لئے لذت آميز منظر نگاري کي جاتي ہے-يعني مظلوم عورت کے ساتھ ہونے والي زيادتي، اس کي رسوائي اور عصمت دري اور اس کو پہنچنے والي جسماني ، روحاني، جذباتي اور نفسياتي اذيت کو لے کر انتظاميہ، ميڈيا اور سماج ميں زيادہ ہڑ کمپ نہيں مچتا- يہ بات اس طرح کے معاملوں کے تئيں سماج ميں پيدا ہونے والي بے حسي اور بے نيازي کي علامت ہے-

سوال يہ ہے کہ يہ بے نيازي اور بے حسي سماج ميں کيوں پنپ رہي ہے- يہ کہنا غالباً غلط نہ ہو گا کہ اس کا تعلق کہيں نہ کہيں اس ذہنيت سے ہے جو عورتوں کو پب ميں ، ڈانس کلبوں ميں اور حسن کے مقابلوں ميں ديکھنا چاہتي ہے- يعني عورت کي جنسي کشش ہي جس کے لئے سب کچھ ہے- جس کے نزديک عورت سب سے پہلے ايک جنسي شے ہے اور لذت اندوزي ہي اس کا اصل مصرف ہے- يہي وجہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ ہونے والي جنسي زيادتيوں کے واقعات مرد سماج کے لئے تشويش اور تکليف کاسبب ہونے سے زياد ہ ہنسي مذاق اور تفريحي تذکرے کا موضوع بننے لگے ہيں -پولس بھي ان واقعات کو خطرناک جرم کے طور پر نہيں ليتي اور ميڈيا کے لئے بھي يہ محض تفريحي پيش کش کا ذريعہ بن جاتے ہيں - ميڈيا ان کي خبر نگاري کو دل چسپ انداز ميں پيش کر کے اپنے ناظرين يا قارئين کو خوش کرنے کي ہي کوشش کرتا ہے-

عورتوں کے تئيں سماج ميں پنپ رہے اس روئے کي وجہ پر جب غور کرتے ہيں تو يہ سمجھ ميں آتا ہے کہ سماج پر مذہبي تعليمات و اخلاقيات کا اثر کم ہو جانے سے يہ صورت حال پيدا ہوئي ہے- کيوں کہ مذہبي تعليمات کے زير اثر سماجوں ميں عورتوں کو عزت کي نگاہ سے ديکھا جاتا رہا ہے- آج بھي جن سماجوں ميں مذہبي تعليمات اور اقدار کي پکڑ ہے وہاں عورتوں کي نسوانيت کا احترام ، نام نہاد روشن خيال جديد تہذيب والے سماجوں سے زيادہ پايا جاتا ہے اور عورتوں پر جنسي حملوں کے واقعات کے لے کر وہ زيادہ حساس ہيں - کہا جاتا ہے قديم ہندستان ميں ويدک تعليمات کے زير اثر عورتوں کو دوسرے ملکوں کي بہ نسبت زيادہ احترام حاصل تھا- اور انہيں ديوي کا درجہ حاصل تھا-

تحرير: ڈاکٹر ظفر محمود  

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

مہربان باپ کي طرف  سے جوان بيٹي کو خط