• صارفین کی تعداد :
  • 4502
  • 9/18/2012
  • تاريخ :

ہم کيوں پہنيں زيورات ؟

زیورات

آرائش حسن

آسان گھريلو نسخے

کيڑے مکوڑوں اور حشرات سے نجات

 يوں تو زيورات پہننے کي تاريخ100,000 سالہ قديم بتائي جاتي ہے ليکن جديد دور نے خواتين کو مردانہ پن کي طرف ايسا دھکيلا ہے کہ انھيں زيورات تو درکنار ہاتھوں ميں چوڑياں ‘کان ميں بندے اور ناک ميں لونگ پہننا گويا عار بن گيا ہے-ايک زمانہ تھا جب پاۆں ميں پازيب کي غير موجودگي خواتين کو سخت گراں گزرتي تھي- انگليوں ميں انگوٹھي پہننے کا رواج اتنا عام تھا کہ منگني کا تصور انگوٹھي کے بغير مشکل ہي نہيں بلکہ ناممکن تھا جبکہ دور حاضر ميں تحائف ميں انقلاب برپا کر ديا ہے اور زيورات کا استعمال اپني کشش کھوتا جا رہا ہے- بازار ميں بکنے والے زيورات گھروں ميں تجوريوں کي زينت بنتے ہيں يا پھر تقريبات ميں شان بگھارنے کا ذريعہ قرار پاتے ہيں -حتيٰ کہ عام طور پر خيال کيا جاتا ہے کہ زيور صرف جسماني زينت بڑھانے اور حسن ميں چار چاند لگانے کے ہي کام آتے ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ زيورات خواہ سونے کے ہوں يا چاندي کے، سيپ کے ہوں يا شيشے کے ہوں يا پھولوں کے زيورحسن کي افزائش کے ساتھ ساتھ صحت کے ضامن بھي ہوتے ہيں - ان سے نہ صرف خواتين کي خوبصورتي ميں اضافہ ہوتا ہے بلکہ يہ بہت سے امراض سے جسم کي حفاظت کا کام بھي انجام ديتے ہيں -ماہرين کا کہنا ہے کہ پتھروں سے مزين زيورات پہننے سے کسي طرح کا نقصان نہيں ہوتا- لہٰذا پريشاني اور ستاروں کو اپنے حق ميں مہربان بنانے کے لئے ، نيلم ، يا قوت، زمرد، ہيرا،موتي وغيرہ استعمال کرنا چاہئيں - جديد سائنس کے مطابق بھي ناک ميں نتھني يا لونگ پہننے سے پھيپھڑوں ميں پہنچنے والي ہوا فلٹر ہو جاتي ہے- اس طرح دھول ‘مٹي يا گرد نيز باريک کيڑے مکوڑے سانس کے راستے پھيپھڑوں تک نہيں پہنچ پاتے بلکہ پھيپھڑوں تک صاف ستھري ہوا پہنچتي ہے- صاف ہو بدن کو ملنے کي وجہ سے گندہ خون اچھي طرح صاف ہو جاتا ہے- يہي صاف خون دل تک پہنچتا ہے جس کي وجہ سے انساني قوت ميں اضافہ ہوتا ہے- ناک ميں زيور پہننے کي وجہ سے ذہانت کو فروغ دينے والے جراثيم کو بھي تقويت ملتي ہے-اس طرح کا ن کا زيور کان ميں داخل ہونے والي ہوا کو مضر اثرات سے پاک کر کے اسے اپنے ميں جذب کر ليتا ہے اور سماعت سے تعلق رکھنے والي نسوں کو صاف رکھنے ميں بھي معاون ثابت ہوتا ہے- ہاتھوں کے زيورات مستقل پور پر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہيں - يہ ٹھنڈک قلبي سکون ميں معاون اور مدد گار ہوتي ہے- کہا جاتا ہے کہ ہاتھوں ميں پہنے ہوئے زيورات آنکھوں کي روشني ميں اضافہ کرتے ہيں اورجسماني توانائي ميں اضافے کا موجب ہوتے ہيں - ماتھے پر استعمال ہونے والے زيورات جلد سے چپکے رہنے کي وجہ سے پسينہ بہانے والے باريک باريک سوراخوں کو صاف کرتے ہيں اور جسم کي چمک دمک بڑھانے ميں بھي مدد گار ہوتے ہيں - علم جيوتش کے مطابق ستاروں کي مناسبت سے انگوٹھيوں کے پہننے کا رواج بہت قديم ہے- عہد رفتہ سے آج کے سائنسي دور تک انگوٹھياں پہني اور پسند کي جاتي ہيں اور ستاروں کے نحس اثرات ختم کرنے کے لئے انہيں خاص قسم کے پتھروں سے سجاکر خصوصيت کے ساتھ پہنا جاتا ہے-

زیورات

کہا جاتا ہے کہ انہيں پہننے سے زہر کا اثر تيزي سے اپنا کام نہيں کر پاتا اور زہر کي جان ليوا رفتار  دھيمي پڑ جاتي ہے- اس سست رفتاري کي وجہ سے پہننے والے کو يہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسے اپني زندگي کے دفاع کا مزيد موقع مل جاتا ہے بلکہ بروقت علاج سے کبھي جان بھي بچ جاتي ہے- زيورات کے ذريعے خاندان ميں افرادي وسعت بھي ممکن ہے-کہا جاتا ہے کہ سارے نگوں ميں ہيرا سب سے افضل ہے ليکن اولاد کے خواہش مند اسے کبھي نہ پہنيں - مطلب يہ ہے کہ جس خاتون کو اولاد نہيں چاہئے اسے ہيرا پہننا چاہئے- ان مقبول عام نگوں کي افاديت اور کميابي کي وجہ سے ہميشہ ان ميں ہيرا پھيري ہوتي رہي ہے- اس لئے ان کي پہچان کے ماہرين نے مختلف طرح کے استعمال مقرر کئے ہيں - نگوں کي آزمائش کے لئے راجہ بھوج نے بڑے تجربات تحرير کئے ہيں - اس کا کہنا ہے کہ جو ہيرا پاني ميں تيرسکے، شديد ضرب برداشت کر سکے، پہلو دار ہو، قوس قزح کي شکل کا ہو، ہلکا ہو، چکنا ہو اور آب دار ہو وہ سب سے بہتر ہوتا ہے- نگوں کے زيورات کے علاوہ موتي بھي صحت کے لئے بہت فائدے مند ثابت ہوئے ہيں - موتي کے لمس سے جسم ميں ٹھنڈک اور سکون کا احساس ہوتا ہے- آنکھ، دل اور دوسرے اعضاء کو تقويت ملتي ہے ليکن موتي مصنوعي بھي بنائے جاتے ہيں - اس لئے ان کي پہچان بھي ضروري ہے-ماہرين کا کہنا ہے کہ اصلي موتي سيپ سے پيدا ہوتے ہيں ليکن سيپ ميں بنے موتي نقلي موتيوں کي نسبت صاف اور چمکيلے ہوتے ہيں - ہاتھي دانت سے بنائے ہوئے موتي يا بادلوں کے ذريعے پيدا ہونے والے موتي نہايت عمدہ تسليم کئے جاتے ہيں - سونے کے زيورات جسماني دھاتوں کي کمي کو دور کرنے ،جسم کو تقويت دينے ،آنکھوں کي بينائي کے لئے مفيد اور زہروں کے اثرات کو ضائع کرنے ميں معاون ہوتے ہيں - ہاتھ لگا کر ديکھيں تو ششيہ يا کانچ ہميشہ ٹھنڈا محسوس کريں گے-کانچ کي چوڑياں يا ديگر زيورات جسم کو مضر حرارت سے بچا کر ٹھنڈا رکھتے ہيں - مختلف رنگوں کي بہار نہ صرف آنکھوں کو لبھاتي ہے بلکہ پہننے والے کے موڈ کو بھي ٹھيک رکھنے ميں مدد ديتي ہے- اس کے ساتھ ہي سيپ کي چوڑياں جسم ميں کيليشم کي کمي کو پورا کرتي ہيں - ان کے پہننے سے خون اور پتے کے امراض کا خدشہ کم رہتا ہے- کچھ لوگ يہ کہہ سکتے ہيں کہ زيورات يعني ہيرا ، سونا، چاندي، موتي ، نگ وغيرہ تو اب خواب کي باتيں ہيں - آج کل يہ پيسے والوں کا کھيل ہے- عام لوگوں کا سنگھار تو اب ہڈي ، پلاسٹک ي اوردوسري معمولي دھاتوں کے زيورات ہيں ليکن يہ جان لينا چاہئے کہ زيورات کا مطلب ہڈي يا پلاسٹک وغيرہ کي اشياء تک محدود نہيں ہے- ايسے زيورات جو جسماني افاديت رکھتے ہيں وہ معمول سے مختلف تو ہوں گے ہي- پھولوں سے بھي سنگھارکيا جاتا ہے-پھولوں کو بطور زيور بھي استعمال کيا جاتا ہے-پرانے زمانے ميں پھولوں کے زيورات کا رواج بہت زيادہ تھا- ہار، گجرے اور دوسرے کئي طرح کے پھولوں کے زيورات پہننے کا دستور تھا- پھولوں کا جسم پر اچھا اثر پڑتا ہے- کنول کے پھول پہننے سے جسم ٹھنڈا رہتا ہے- بدن ميں پھوڑے پھنسي وغيرہ ہونے کي صورت ميں نہ صرف پہننے والے کو آرام ملتا ہے بلکہ مرض کي افزائش ميں کمي واقع ہو جاتي ہے- جسم پر زہر کا اثر کم ہوتا ہے- گلاب ، بيلا ، جوہي وغيرہ کے زيورات فرحت بخش ہوتے ہيں - ان کے استعمال سے موٹاپا کم ہوتا ہے- چمپا، چنبيلي ، موگرے وغيرہ کے زيوراستعمال کرنے سے جسماني کمزوري اور خون کي خرابياں دور ہو جاتي ہيں اور دل بھي خوش رہتا ہے-

تحرير: ايس اے ساگر

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان