• صارفین کی تعداد :
  • 2470
  • 7/3/2012
  • تاريخ :

 دين کي حمايت و حفاظت

امام زمانہ

امام حسين(ع) اورامام زمان (عج) کے حقيقي يار و دوستوں کي ايک اور مشترکہ خوبي " دين کي حمايت و حفاظت کرنا " ہے - امام حسين(ع) کے اصحاب خداوند متعال کے احکام کي اطاعت و پيروي ميں اور اپنے امام کي فرمائشوں کو عملي جامہ پہناننے ميں ، سب سے زيادہ تابع اور فرمانبردار تھے - انہوں نے اپنا خون ايثار کرکے دين اور اس کي انسان سازتعاليم کي حمايت اور حفاظت کي - اس لئے کہ اس زمانے ميں ، دين خداوند نابودي کے دہانے پر پہنچ گيا تھا !- حضرت ابوالفضل عباس (ع) اپني فرياد ميں جو انہوں نے بدن سے اپنا داہيں ہاتھ جدا ہونے کے بعد دي ، اس ميں دين کي حمايت و حفاظت پر تاکيد کرتے ہيں :

" والله اهن قطعتموا يميني اني أحامي ابدا عن ديني ؛   اس کے باوجود تم نے ميرا داہيں ہاتھ قطع کر ديا ہے ، ليکن  خدا کي قسم ہرگز ميں اپنے دين کي حمايت اور حفاظت سے دستبردار نہيں ہوں گا " -  اسي وجہ سے بعض زيارتوں ميں ، امام حسين(ع) کے يار و دوستوں کو دين خداوند متعال کے " انصار  و مددگار " کہا گيا ہے : 

" السلامُ عليكم أَيُها الدابون عن توحيدالله " -  ، " السلام عليكم يا انصارَ دين اللهِ وَ انصارَ نَبِيِّهِ " -

امام زمان (عج) کے مطلوبہ معاشرہ کا ايک اہم بنيادي رکن ،  " دين کا نفاذ " ہے - بہت ساري اسلامي روايات ميں حضرت وليعصر(عج) کے ذريعے دين کے احياء ہونے ، کا ذکر کيا گيا ہے - دين احياء ہونے کا ايک ممطلب يہ ہے کہ ديني معارف اور تعاليم ، اس طرح بيان اور اجرا کئے جائے گے جو ظھور سے ماقبل ديني معارف اور تعاليم سے مختلف اور جدا ہوں گے - اسي وجہ سے ، بعض لوگ خيال کرے گے کہ حضرت نے کوئي نيا دين لايا ہے -  بنيادي طور پر امام مھدي (عج) کا ايک اہم اقدام  ، اسلام کے خالص اور حقيقي اقدار ، معارف اورتعاليم کو دوبارہ زندہ کرنا ہے !- حضرت امام علي (ع) اس بارے ميں فرماتے ہيں : " و يُحيِي ميتَ الكتابِ و السنةِ  ؛ وہ مري ہوئي  اور ختم ہوئي (متروک ) كتاب و سنت کو زندہ کرے گا - "

ہم ميں سے بعض لوگ تو دوبارہ اسلام کے احياء ہونے کو برداشت نہيں کرپائے گے اور اس کي مخالفت کے لئے کھڑے ہوجائے گے - امام عالي مقام بھي ان سے لڑے گے ، اور اس معاملے ميں حضرت کے يار و دوست دين ِ خداوند کا نفاذ ، قائم کرنے اور اسے مضبوط بنانے ميں ان کي حمايت و نصرت کرے گے - اميرالمومنين (ع) حضرت مهدي (عج) کے حقيقي يار و دوست کي تعريف ميں يوں فرماتے ہيں :

" اس کے يار و دوست اپنے امام کي بيعت کرے گے اور اپنا ہاتھ اور دامن پاکيزہ رکھے گے ، زبان گالي کے خاطر نہيں کھولے گے ، کسي کا خون ناحق نہيں بھائے گے ، لوگوں کي رہائش گاہ پر حملہ نہيں کرے گے ، كسي کو ناحق تکليف نہيں دے گے ، ممتاز (غيرمعمولي ) مركبوں پر سوار نہيں ہوں گے ، قيمتي لباس‌ نہيں پہنے گے ... امانت ميں خيانت نہيں کرے گے ، يتيم پر ظلم روا نہيں رکھے گے ، راستہ ميں ناامني نہيں پھيلائے گے ، پناہ دينے والے اور زخمي نہيں مارے گے ، فرار کرنے والوں کا پيچھا نہيں کرے گے اور راه خدا ميں اچھي طرح جهاد کرے گے " !-

البتہ انہيں ايسے ہي بہترين صفات سے آراستہ ہونا چاہيے ، اس لئے کہ اسلامي حکومت کا ايجاد و قيام ، خداوندمتعال کے قوانين کي رعايت ميں پوشيدہ ہے ، نيز مثالي اور آئيڈيل معاشرے کي ايجاد و قيام بھي ، صحيح اسلامي تريبت و پرورش کے بغير ممکن نہيں ہے - اگر ايک حکومت کے اہلکار اور اس کے حقيقي چاہنے والے ، دين کے پيروکار ہوں ، تو لوگ بھي دين کي پابندي کاخيال رکھے گے - امام حسين (ع) کے حقيقي يار و دوستوں نے اپني شهادت اور الٰھي احکام عملي طور پر انجام دينے سے دين کي حرمت محفوظ رکھيں اور اس کي حمايت کيں ، جبکہ امام زمان (عج) کے حقيقي يار و دوست بھي الٰھي قوانين اور شرعي حدود کي رعايت سے دين کي حمايت اور حفاظت کرنے کا کردار نبھاتے ہيں - اس طرح سے دونوں جماعت کے افراد دين کے حامي اور محافظ ہيں اور يہ ان دونوں کي ايک مشترکہ انوکھي اور ممتاز خصوصيت ہے !-

حضرت مھدي (عج) کے حقيقي يار و دوست اپنے مولا کے عاشق ہيں اور اس کي راہ کے فداکار و پيروکار -  وہ غلاموں کي طرح (مجبوري سے ) اپنے مالک کا تابع ہونے (اوراس سے حکم لينے اور انجام دينے ) کے بجائے ، کہيں بہترصالح فرزندوں کي طرح ( جوش و شوق کے ساتھ ) امام عالي مقام سے امر و حکم ليتے ہيں ، اس کي اطاعت کرتے ہيں اور اس کے فرمانوں کو انجام دينے ميں ايک دوسرے پر سبقت ليتے ہيں -  جناب رسول اکرم (ص) کي فرمائش کے مطابق ، وہ اس کي پيروي کرنے ميں سعي و تلاش کرنے والے ہيں - حضرت وليعصر (عج) کے تئييں ان کا قلبي عشق و محبت ، انہيں فرمانبرداري کرنے پر اکساتا ہے اور وہ پروانے کي طرح ، اس حضرت کے شمع جيسے وجود کے اطراف ميں گردش کرتے رہتے ہيں -

بشکريہ اھل البيت ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

امام حسين (ع) اور امام مھدي (عج) کے اصحاب کي ممتاز صفات!