• صارفین کی تعداد :
  • 3675
  • 6/25/2012
  • تاريخ :

 سوال و جواب کے نشستوں کا انعقاد

نوجوان

*  سوال و جواب کے نشستوں کا انعقاد:

ايک اہم عامل جو نوجوانوں کو فکري اور اعتقادي انحراف ميں دھکيل ديتے ہيں ديني ، سياسي اور اجتماعي مسائل کا غلط تجزيہ و تحليل ہے جب جوان کسي بھي نئے مسئلے سے دوچار ہوتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اسے صحيح معنوں ميں درک کريں جب والدين اور تعليم و تربيت کے ماہرين انکا صحيح اور مناسب تجزيہ نہ کريں تو نوجوان اپني فطري حس جستجو کو سيراب کرنے کيلئے دست و پا مارنا شروع کرديتا ہے اس دوران اغيار جوکہ ہر آن ايسے شکاري کي گھات ميں ہوتے ہيں موقع مناسب پا کر اپنا زہريلا مواد (ان مسائل کے غلط اور شبہ انگيز تجزيہ اور تحليل ) کے ذريعے انکي افکار کو غلط سمت دينا شروع کرتے ہيں - ايسے ميں اگر والدين اور معاشرے کے دلسوز اور ذمہ دار افراد تجربہ کار اور ماہرين کے ذريعے سوال و جواب کي صورت ميں ان مسائل کا صحيح تجزيہ پيش کريں تو حتما ہمارے جوان اور نوجوان بہت ساري فکري اور اعتقادي کج رويوں سے محفوظ رہ سکتے ہيں-

* گھروں ميں جوانوں اور نوجوانوں کيلئے دوستانہ ماحول پيدا کرنا:

بچپنےاور نوجواني کے ايام ميں زيادہ تر بچے اور نوجوان غلط قسم کے دوستيوں ميں گرفتار ہوجاتے ہيں اس کي وجہ گھروں ميں ان کيلئے دوستانہ اور محبت سے بھرے ماحول کا فقدان ہوسکتاہے- جب گھروں ميں اس چيز کا وجود نہ ہو يا کم رنگ ہو تو جوان اور نوجوان گھر سے باہر اسکي تلاش ميں نکل پڑتا ہے جو انہيں بعض اوقات دشمنوں کے دام ميں گرفتار کر ديتا ہے - بنابراين اگر گھر ميں يہ ماحول انکے لئے والدين اور دوسرے افراد خانوادہ کے ذريعے فراہم ہو تو کافي حد تک ان کي فکري اور اعتقادي مسائل ميں انحراف سے بچنے کا سامان فراہم ہو جاتاہے-

* اچھے اور شايشتہ دوستوں کا انتخاب

کبھي ديکھنے ميں آتا ہے کہ ايک شخص کيلئے تربيتي اور تعليمي ماحول، کامل اور اچھے انداز ميں فراہم ہونے کے باوجود برے دوستوں کے ساتھ رفت و آمد ان کے انحراف کا سبب بنتا ہے- ايسا اسلئے هوتا هے که جوان اور نوجوان اپنے کم تجربه اور ماحول کے اونچ نيچ سے صحيح آشنا نه هونے کي وجه سے يا دوست اور دوستي کے حقيقي معيار اور سنجش ميں اشتباه کرنے کي وجه سے غلط اور برے دوستوں کے ساتھ رفت و آمد رکھتا هے-

لذا اگر والدين اس زمينے ميں اگر انکي راہنمائي کريں اور اپنے تجربوں اور آگاہي کے ذريعے انکي مدد کريں تو کافي حد تک جوانوں کو فکري آلودگيوں سے بچايا جا سکتا ہے-

ممکن ہے کہا جائے کہ آخر کيسے ماں باپ اور دوسرے ذمہ دار افراد ان کے لئے دوستوں کا انتخاب کرسکتے ہيں؟

اسکا جواب يہ ہے کہ درست ہے والدين اور دوسرے افراد ابھي انکي دوستوں کي انتخاب ميں کوئي کردار ادا نہيں کرسکتا ليکن بچپنے ميں تو والدين يہ کام کرسکتے ہيں اور وہ اس طرح کہ اکثر ديکھنے ميں آتا ہے کہ جوان اور نوجوان اکثر ان افرادکے ساتھ دوستي کرتے ہيں جن کے ساتھ بچپنے ميں زيادہ آمدورفت رکھتے تھے يا جسے وہ بچپنے سے جانتا تھا پس والدين بچپنے سے ہي انکے دوستوں کا انتخاب کرکے انہيں جواني اور نوجواني ميں اس مشکل سے دور رکھ سکتےہيں-

نتيجہ :

گھر ، مدرسہ اور ثقافتي مراکز ہر کوئي جوانوں اور نوجوانوں کي فکري اور اعتقادي انحراف سے پيشگي حفاظت ميں اپنا اپنا کردار ادا کرسکتا ہے-

گھر ، پيدائش اور بچپنے سےہي ايک دوستانہ اور آلودگيوں سے پاک ماحول فراہم کرکے اپنا کردار ادا کرسکتاہے-

اور مدرسہ ، ايک معياري اور اچھے تربيتي نظام تعليم کے ذريعے جوانوں اور نوجوانوں کي فکري اور اعتقادي محاذوں کي نگہباني کرسکتي ہے-

جبکہ ثقافتي امور کےذمہ دار افراد معاشرے ميں ايک پاک و صاف ثقافتي مراکز ميں مناسب تربيتي اور تفريحي پروگراموں کے انعقاد کے ذريعے جوانوں اور نوجوانوں کےفارغ اوقات سے استفادہ کرکے انہيں غيروں کےثقافتي يلغارکے دام ميں پھنسنےسے بچايا جا سکتے ہيں-

لازم ہے کہ ہر شخص حسين ابن علي ہو

اے قوم وہي پھر ہے تباہي کا زمانہ

اسلام ہے پھر تير حوادث کا نشانہ

کيوں چپ ہے اسي شان سے پھر چھيڑ ترانہ

تاريخ ميں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ

مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلي ہو

لازم ہے کہ ہر شخص حسين ابن علي ہو