• صارفین کی تعداد :
  • 3922
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

قرآن مجيد ولايت اميرالمؤمنين (ع) کا گواہ2

بسم الله الرحمن الرحیم

سراب کبھي بھي پياسوں کو سيراب نہيں کرتا اور کبھي بھي بے آب و گياہ صحرا ميں پھول نہيں اگتے-

جو انسان توحيد و نبوت اور معاد و معارف دين اور شئونِ جمال و جلال و کمال ربوبي سے بے بہرہ ہو اور اسلامي فقاہت کے بحر مواج سے بے خبر ہے اور حتي کہ بعض اوقات ايک چھوٹي سي آيت شريفہ کا ترجمہ کرنے اور مطلب سمجھنے سے قاصر ہو وہ ولايت کے اعلي مقام پر بيٹھنے کا ہرگز لائق نہيں ہے-

جہاں قرآن حکم ديتا ہے اور ايک انسان کو ولايت کے لئے منتخب کرتا ہے وہاں دوسروں کے لئے استدلال اور بحث و تمحيص کي گنجائش ہي باقي نہيں رہتي- جہاں تمام مفسرين و محدثين آيت ولايت کو خدا، رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور علي عليہ السلام ميں ـ جنہوں نے حالت رکوع ميں خيرات دي تھي ـ ميں منحصر سمجھتے ہيں، تو پھر دوسروں کي ولايت کے لئے کيا گنجائش ہوسکتي ہے؟ اور پھر قرآن مجيد نے دوسرے مقام پر اپنے انتخاب کا معيار بيان فرمايا: "إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ"- (2) بے شک اللہ تعالي نے اسے (طالوت كو) تم پرتر جيح دي ہے اور اسے علم اور جسماني طاقت ميں زيا دتي عطا کي-

يہ آيت قرآني اور اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالي کا ارشاد ہے کہ صرف وہي انسان کامل عوام اور کا ولي اور حاکم ہوسکتا ہے جو جسماني لحاظ سے بے مثل و بے مانند ہو اور علم و دانش کے لحاظ سے سب سے اعلي مقام و مرتبے کا مالک ہو- اب سوال يہ ہے کہ صحابہ ميں کون تھا جو جسماني قوت اور علمي اہليت ميں علي ابن ابيطالب عليہ السلام کے سامنے اپنے وجود کا اظہار کرسکے؟ کون ہے جس نے اپني علمي اور جہادي معرکوں ميں اميرالمؤمنين جيسے تاريخي کارنامے تاريخ کے ماتھے پر رقم کئے ہوں؟

---------

مآخذ

2- سورہ بقرہ آيت 247- "وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ-