• صارفین کی تعداد :
  • 3076
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 16

بسم الله الرحمن الرحیم

--- بالفاظ ديگر اگر اللہ تعالي اس آيت ميں وليکم کي جگہ اوليائکم کا لفظ استعمال کرتا تو اس سے معلوم ہوتا کہ ولايت کي مختلف قسميں ہيں جو بعض افراد کو مؤمنين پر حاصل ہے؛ جبکہ اللہ تعالي نے يہ نہيں فرمايا اور ايک خاص قسم کي ولايت کا تعين کيا ہے- در حقيقت اللہ کي ولايت اور حضرت رسول (ص) اور حضرت علي کي ولايت ايک ہي قسم کي ولايت ہے؛ فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ کي ولايت ذاتي اور مستقل ہے اور يہ ولايت اس کو کسي سے نہيں ملي ہے (بلکہ چونکہ خداوند متعال تمام موجودات کا خالق ہے اسي بنيادپر تمام موجودات کا ولي، حاکم اور سرپرست ہے) جبکہ حضرت رسول (ص) اور حضرت اميرالمؤمنين (ع) کي ولايت خداوند متعال نے انہيں عطا فرمائي ہے اور ان کي ولايت اللہ کي ولايت سے وابستہ ہے-

جس طرح کہ شيعيان آل محمد (ص) کا عقيدہ ہے کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمۂ معصومين عليہم السلام اللہ کے بندے ہيں اور ان کے پاس جو کچھ بھي اللہ نے عطا کيا ہے اور وہ خود مستقل طور پر ان اوصاف و خصوصيات اور عہدوں يا قوتوں کے مالک نہيں ہيں جو انہيں عطا ہوئي ہيں-

نتيجہ

اب تک جو کچھ ذکر ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ:

1- قرآن کريم نے مؤمنين کي ولايت و سرپرستي کا مسئلہ نہايت واضح اور روشن انداز سے متعدد آيات کے ضمنميں بيان فرمايا ہے-

2- اس آيت ميں مذکورہ ولايت کے معني سرپرست اور صاحب اختيار ہي کے ہيں-

3- قرآن کريم کے نزديک ولايت صرف ايک خاص گروہ کے لئے ثابت ہے اور دوسروں سے اس کي نفي ہوئي ہے-

4- قرآن مجيد کے نزديک مؤمنين پر ولايت کے کا منصب صرف اللہ کے پاس ہے اور دوسروں کو صرف اسي وقت قابل قبول ہے کہ وہ انہيں اللہ کي جانب سے عطا ہوئي ہو-

5- مؤمنين کو تمام امور ميں اپنے ولي سے رجوع کرنا چاہئے اور اسي کي پيروي کرني چاہئے اور اسي کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دينا چاہئے- ---