• صارفین کی تعداد :
  • 1850
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے سرپرست 6

بسم الله الرحمن الرحیم

اگر اول الذکر جملے کے آغاز ميں لفظ "انما استعمال کيا جائے تو قيام (کھڑے ہونے کے عمل) کو محمد ميں محصور و منحصر کردے گآ اور اس جملے کے معني يہ ہونگے کہ "کھڑا ہونے والا فرد محمد کے سوا کوئي بھي نہيں" يعني کوئي اور کھڑا نہيں ہے)- ليکن مؤخر الذکر جملے کے شروع ميں انما سے استفادہ کيا جائے تو اس کے معني يوں ہونگے کہ "محمد صرف کھڑا ہے"، (يعني محمد کھڑے ہونے کے عمل کے سا کچھ بھي نہيں کررہا ہے)- ہماري اس آيت ميں بھي جملے کا آخري رکن ان افراد کا تعارف کرانا ہے جو مؤمنين پر ولايت رکھتے ہيں- نتيجہ يہ ہوگا کہ مذکورہ امور و قواعد کي بنا پر "انما" کا لفظ ولايت کو ان افراد پر منحصر کرديتا ہے اور آيت بيان کرتي ہے کہ "مؤمنين کے اولياء صرف اور صرف خدا، رسول (ص) اور مؤمنين ہيں جو نماز ادا کرتے ہيں اور رکوع کي حالت ميں زکواة و صدقہ ديتے ہيں"-

لفظ "وليّ"

مفردات القرآن، لسان العرب وغيرہ جيسي کتب ميں اس لفظ کے لئے متعدد معاني بيان ہوئے ہيں جيسے داماد، حليف، دوست، حاکم و سرپرست اور يار و مددگار وغيرہ- مذکورہ معاني ميں سے بيشتر، اس آيت ميں بلکہ لفظ ولي پر مشتمل دوسري آيات مبارکہ بعض، لفظ "ولي" کي تشريح کے دوران، صحيح مفہوم نہيں پہنچاتے، مثال کے طور پر اگر ان معاني ميں سے ہم اول الذکر معني "داماد" کو ولي کے متبادل کے طور پر مدنظر رکھيں تو آيت کا ترجمہ يوں ہوگا: "صرف اللہ اور اس کا رسول اور حالت رکوع ميں زکواة دينے والے مؤمنين کے داماد ہيں!"، ‌اور اس معني کي عدم صحت مکمل طور پر آشکار ہے؛ چنانچہ اسلامي مفسرين اور صاحبان رائے و نظر نے اس لفظ کو تين معاني ميں محدود کرديا ہے-

1- دوست

2- يار و ياور اور ناصر و مددگار

3- سرپرست اور صاحب اختيار