• صارفین کی تعداد :
  • 1907
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت-16

بسم الله الرحمن الرحیم

يہ گواہي اور اقرار لينے کا مقصد کيا تھا؟ کيا اس گواہي کے ذريعے رسول اللہ (ص) لوگوں کو ذہني طور پر علي عليہ السلام کے مقام و منصب کے اعلان کے لئے تيار کررہے تھے اور انہيں اس حقيقت کے لئے تيار کررہے تھے کہ علي (ع) کي ولايت و امامت پر بھي اللہ کي وحدانيت اور رسول اللہ (ص) کي رسالت کي مانند ايمان لائيں اور جان ليں کہ ولايت و امامت اسلام کے تين بنيادي اصولوں ميں سے ايک ہے جن پر سب کا ايمان ہے اور سب کو ان پر اقرار کرنا چاہئے- اگر لفظ مولا سے مراد دوست يا ناصر و مددگار ہوتا تو رسول اللہ (ص) کے دو حکيمانہ جملوں کے درميان ربط و تعلق ختم ہو کر رہ جاتا اور يہ کلام اپني استواري اور استحکام کھو ديتا اور کلام رسول (ص) کے جملوں کي پيوستگي ختم ہوکر رہ جاتي- کيا ايسا ہے؟ [کيا رسول اللہ (ص) جو اللہ تعالي کے بعد حکمت و علم و مرتبت کے حوالے سے دوسرے ہيں، سے بے ربط کلام صادر ہوسکتا ہے؟!] کيا يہ بات درست ہے؟

***

پانچواں گواہ:

رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے خطاب کے آغاز پر اپني رحلت اور وصال کي خبر دي اور فرمايا: "إنّي أَوْشَكُ أَنْ اُدْعى فَاُجِيبَ" قريب ہے کہ مجھے دعوت حق ملے اور ميں بھي لبيک کہدوں"- (24)

-------

مآخذ

24- الغدير ج1 ص26، 27، 30، 32، 333، 34، 36، 47 اور 176 سے رجوع کريں؛ علامہ اميني نے يہ جملہ صحيح ترمذى، ج 2، ص 298; الفصول المهمّه ابن صباغ، ص 25; المناقب الثلاثه حافظ ابى الفتوح، ص 19; البداية و النّهاية ابن كثير، ج 5، ص 209 و ج 7 ص 348; الصواعق المحرقه، ص 25; مجمع الزّوائد هيتمى، ج 9، ص 165 وغيرہ سے نقل کيا ہے-