• صارفین کی تعداد :
  • 1395
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

آيت ولايت کے مخالفين کا جواب 7

بسم الله الرحمن الرحیم

2- فخر رازي اور بعض ديگر متعصب افراد نے کہا ہے کہ: حضرت علي عليہ السلام نماز ميں خدا کي طرف خاص قسم کي توجہ رکھتے تھے اور اللہ کے ساتھ مناجات اور راز و نياز ميں محو ہوجايا کرتے تھے (مشہور ہے کہ آپ (ع) کي ٹانگ ميں تير پيوست ہوا تھا جو حالت نماز ميں نکال ديا گيا اور آپ (ع) اس کا درد محسوس نہيں ہوا) تو پھر يہ کيسے ممکن تھا کہ آپ (ع) نماز کي حالت ميں سائل کي آواز سنتے اور اس کو توجہ ديتے؟- (15)

جواب: ‌

يہ حضرات اس حقيقت سے غافل ہيں کہ سائل کي صدا سننا اور اس کي مدد کرنا اپني ذات اور دنياوي امور کي طرف توجہ کے زمرے ميں نہيں آتا؛ بلکہ بعينہ اللہ تعالي کي طرف توجہ ہے- حضرت اميرالمؤمنين علي عليہ السلام نماز کي حالت ميں اپني ذات اور دنياوي معاملات سے بيگانہ تھے ليکن خدا سے بيگانہ نہ تھے اور ہم جانتے ہيں کہ خلق خدا سے بيگانگي درحقيقت خدا سے بيگانگي ہے؛ بالفاظ ديگر نماز ميں زکواة کي ادائيگي ايک عبادت کے ضمن ميں دوسري عبادت ہے اور يہ عمل عبادت کے ضمن ميں ايک مباح عمل انجام دينے کے زمرے ميں نہيں آتا-

نيز بالفاظ ديگر مادي اور ذاتي زندگي کي طرف توجہ ہے جو روحِ عبادت سے سازگار وہماہنگ نہيں ہے؛ تا ہم ان مسائل کي طرف توجہ دينا جو رضائے الہي کے سلسلے ميں قرار پاتے ہيں، روحِ عبادت سے مکمل طور پر سازگار و ہماہنگ ہے اور يہ توجہ انسان کي عبادت کو تقويت پہنچاتي ہے- يہ نکتہ واضح کرنا بھي ضروري ہے کہ خدا کي طرف توجہ ميں محو ہونے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ انسان بے اختيار ہوکر اپنا احساس ہي گنوا دے بلکہ انسان خودہي اپنے ارادے سے ان تمام چيزوں سے اپني توجہ ہٹا ديتا ہے جو خدا کي راہ ميں اور خدا کے لئے نہيں ہيں- (16)

-------------

مآخذ:

15- تفسير مفاتيح الغيب، فخر رازي، ج12، ص 386-

16- تفسير نمونه، ج4، ص 428-