• صارفین کی تعداد :
  • 1567
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

آيت ولايت کے مخالفين کا جواب 5

بسم الله الرحمن الرحیم

اس آيت ميں ولايت کے معني پر ايک اور قرينہ اور نشان و ثبوت بھي موجود ہے اور اس سے بھي ثابت ہے کہ ولايت کے معني "سرپرستي، رہبري، اور تصرف" کے ہيں؛ کيونکہ "حزب اللہ" اور "اس کے غلبے" جيسي عبارتوں کا تعلق اسلامي حکومت سے ہے، اور اس سے مراد ايک سادہ اور معمولي دوستي نہيں ہے؛ اور اسي سے ثابت ہوتا ہے کہ آيت ميں ولايت سے مراد اسلام کي سرپرستي، رہبري وامامت، حکومت اور قيادت ہے کيونکہ "حزب" سے مراد ايک تنظيم اور ايک اجتماع ہے جو مشترکہ اہداف و مقاصد کے لئے معرض وجود ميں آتا ہے اور سرپرستي، رہبري وامامت، حکومت اور قيادت حزب کے مفہوم ميں بھي مضمر ہے- (11)

پس دو آيتوں کے مضمون کا حاصل اور اس کا ثمرہ يوں سامنے آتا ہے: "جس طرح کہ خداوند متعال اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے ولي اور سرپرست ہيں حضرت اميرالمؤمنين علي عليہ السلام بھي مسلمانوں کے ولي اور سرپرست ہيں"-

ولايت کے معني کے مخالفين کے چند اعتراضات کا جواب

مخالفين ميں سے بعض متعصبين بڑے اصرار کے ساتھ ان موضوعات پر اعتراض کرتے نظر آتے ہيں کہ ولايت کي آيت حضرت اميرالمؤمنين علي عليہ السلا کے حق ميں نازل ہوئي ہے اور ولايت سے مراد سرپرستي، تصرف اور امامت ہے- ہم يہاں ان ميں سے بعض اعتراضآت کا جائزہ ليتے ہيں:

1- اس آيت ميں "الذين" جمع کے لئے ہے جس کا اطلاق ايک فرد پر نہيں ہوتا اور بعبارت ديگر، آيت کہہ رہي ہے کہ تمہارے "ولي" وہ لوگ ہيں جو نماز بپا کرتے ہيں اور رکوع کي حالت ميں زکواة ديتے ہيں تو يہ عبارت کيونکر "علي (ع)" کي مانند ايک فرد پر قابل تطبيق ہے؟- (12)

-------------

مآخذ:

11- تفسير نمونه، ج4، ص 433-

12- تفسير مفاتيح الغيب، فخرالدين رازي (محمد بن عمر)، دارالاحياء التراث العربي، بيروت، چاپ سوم، 1420ق، ج12، 384 و 385-