• صارفین کی تعداد :
  • 4701
  • 2/8/2012
  • تاريخ :

سورۂ بقره کي آيات  نمبر 29-28  کي تفسير

بسم الله الرحمن الرحیم

خداوند وحي و قرآن کي حمد و نيايش اور حامل رسالت و ہدايت مرسل اعظم (ص) اور ان کے اہلبيت مکرم (ع) پر درود اور مدح و ستائش کے ساتھ سورۂ بقرہ کي سلسلہ وار تفسير " کلام نور" ميں آج ہم اپني يہ روح پرور گفتگو اٹھائيسويں آيت کي تلاوت سے شروع کر رہے ہيں - حيات و ممات سے متعلق کفار و مشرکين کے غلط تصورات اور امر الہي ميں غير اللہ کي شرکت کے باطل اعتقادات کي نفي کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے :

کَيفَ تَکفُرونَ بِاللہِ وَ کُنتُم اَموَاتا" فَاَحيَا کُم ثُمّ يُمِيتُکُم ثُمّ يُحيِيکُم ثُمّ اِلَيہِ تُرجَعُونَ

تم کيسے اللہ کے سلسلے ميں کفر و انکار کرتے ہو جبکہ تم ( ايک وقت بے جان و روح ) مردہ تھے پس اس نے تم کو زندہ کرديا، پھر تم کو ( دوبارہ روح قبض کرکے ) موت ديدي پھر زندہ کرے گا اور تم اسي کي طرف لوٹائے جاؤگے -

عزيزان محترم! کافر اگرچہ بنيادي طور پر حيات و موت کے قائل ہيں ليکن اولا" وہ اس ميں غير اللہ کو ( کم از کم ) شريک مانتے ہيں اور ثانيا" وہ زندگي کو ولادت سے موت تک محدود قرار ديکر برزخ اور قيامت کي دوسري زندگي کے منکر ہيں اسي لئے خدا نے آيت ميں حيرت يا سرزنش کا لہجہ اپنايا ہے ، حققيت يہ ہے کہ خدا کي معرفت ، کائنات کي شناخت اور خود اپني پہچان کےلئے بہترين راہ يہ ہے کہ انسان خود اپني اور دنيا کي پيدائش اور حيات و موت کے بارے ميں غور و فکر سے کام لے ظاہر ہے زندگي اور موت پر توجہ انسان پر يہ حقيقت روشن کرديتي ہے کہ ہمارا وجود خود ہماري اپني ايجاد نہيں ہے ہم سے بالاتر کوئي اور ہے جس نے ہم کو پيدا کيا ہے اور وہي جب چاہتا ہے ہم کو موت ديديتا ہے ورنہ ہم اپني زندگي کے خود مالک ہوتے اور جب تک چاہتے زندہ رہتے موت ہمارے قريب نہ آتي حالانکہ ہمارا آغاز خاک يا ايک مردہ ؤ بے جان نطفے سے ہوا ہے اور اللہ نے ہي اس ميں حيات ڈالي ہے اور ماں کے شکم ميں ايک پيکر اور چہرہ عطا کرکے دنيا ميں لايا ہے پھر دنيوي زندگي کے بعد موت عالم برزخ ميں منتقل کرديتي ہے اور برزخ کي زندگي کے بعد اللہ ہي انسان کو قبروں سے اٹھا کر ميدان قيامت ميں اپنے سامنے حاضر کرتا ہے گويا انسان ايک طرف ازلي چشمہ حيات سے اور دوسري طرف ابدي مخزن ہستي سے منسلک ايک فقير و محتاج وجود ہے جو نہ خود سے پيدا ہوا ہے اور نہ ہي کسي ايسے نے اس کو پيدا کيا ہے جو خود اسي کي طرح اپنے وجود ميں فقير و محتاج ہے بلکہ الہي نسيم حيات نے جان و روح سے نوازا اور عقل و فہم و شعور سے سنوارا ہے شايد اسي لئے علم و سائنس ميں اس قدر ترقيوں کے باوجود انسان خود اپني حيات و موت کے اسرار و رموز کو سمجھنے سے عاجز و ناتواں ہے نہ ہم اپني حيات پر اختيار رکھتے اور نہ ہي موت کے مختار ہيں سب کچھ خدا کے ہاتھ ميں ہے پس ہم کس بنياد پر خدا کا انکار کرسکتے ہيں ہماري حيات و موت خود اس کي ہي مرہون منت ہے اور جو خدا ہم کو پہلي مرتبہ حيات دے سکتا ہے جبکہ ہم کوئي وجود نہيں رکھتے تھے کيا وہ ہم کو موت کے بعد دوبارہ حيات نہيں دے سکتا؟ يہاں ايک قابل توجہ بات يہ ہے کہ آيت ميں دنيوي زندگي سے پہلے کے مرحلے کو "وَ کُنتُم اَموَاتا" سے تعبير کيا گيا ہے جو ممکن ہے نطفے کے لئے ہو جو اصلاب و ارحام ميں رہا ہے يا اس سے بھي پہلے کے مرحلے کي طرف اشارہ ہو جب نطفہ خاک کے مرحلے ميں تھا، بہرصورت خاک اور نطفے ميں بھي اگرچہ ايک خفيف وضعيت حيات پائي جاتي ہے ليکن چونکہ وہاں انساني حيات نہيں پائي جاتي اس اعتبار سے ان کےلئے " امواتاً " کي تعبير صدق آتي ہے کہ " تم مردہ تھے ہم نے زندگي ديدي " - اسي طرح قرآن نے سورۂ مريم (ع) کي نويں آيت ميں لَم تَکُ شَيئا" کہ تم کوئي چيز نہيں تھے اور سورۂ انسان کي پہلي آيت ميں " لَم يَکُن شَيئا" مّذکُورا" يعني جب تم کوئي قابل ذکر شے نہيں تھے، جيسي تعبيروں سے ياد کيا ہے -

پس آيت ميں ذکر شدہ پانچ مرحلے ہيں : 1- سابقۂ موت 2- خدا کي دي ہوئي دنيوي حيات 3- زندگي کے بعد قبض روح کے ذريعہ دي گئي موت 4- خدا کے ہاتھوں تمام مردوں کا پھر سے احياء يا قبروں سے اٹھايا جانا اور 5- خدا کے سامنے انسانوں کا حاضر کيا جانا، ان ميں پہلے مرحلے کو سب قبول کرتے ہيں، دوسرے مرحلے ميں اصل حيات کو سب مانتے ہيں مگر مومن حيات کا خالق خدا کو اور کافر و دہريے فطرت يا نيچر کو اور بعض اس کو مادہ کے تغيير کا نتيجہ سمجھتے ہيں؛ تيسرے مرحلے کے سلسلے ميں بھي يہي صورت ہے البتہ چوتھے اور پانچويں مرحلے کے سلسلے ميں مومن ايمان رکھتا ہے اور کافر قطعي طور پر انکار کرتے ہيں اور وہ عالم برزخ يا عالم آخرت دونوں کو قبول نہيں کرتے لہذا آيت دوسرے تيسرے اور چوتھے پانچويں دونوں کے اثبات کے لئے ہے پہلے مرحلے ميں سب متفق ہيں دوسرے تيسرے مرحلے کا توحيد اور چوتھے پانچويں مرحلے کا معاد سے تعلق ہے کافرين و ملحدين جن کا انکار کرتے ہيں البتہ موحدين سب کو قبول کرتےہيں -

اس طرح انسان کي حيات و موت کے مختلف مراحل کے ضمن ميں ہي اپني توحيد اور قيامت کااثبات کرنے کے بعد اللہ نے اپني چند نعمتوں کا ذکر کيا ہے جو اس کي توحيد کے حق ہونے کي کھلي نشانياں ہيں اور انسانوں کے مادي استفادے کے ساتھ معنوي کمال و ارتقاء کے لئے پيدا کي گئي ہيں چنانچہ قرآن حکيم ميں ان کا بيان دعوت توحيد کے ساتھ انسانوں کي تہذيب و تربيت کے لئے ہوا ہے ؛ انسان کو يہ بات سمجھ ليني چاہئے کہ تمام آسمانوں اور زمين کو انسانوں کےلئے ہي اللہ نے خلق کيا ہے انسان ان کے لئے نہيں خلق ہوا ہے لہذا زميني يا آسماني نعمتوں کو ہي اگر انسان نے اپنا ہدف و مقصد بناليا تو يہ انسان کےلئے سب سے بڑا خسارہ ہوگا، اسي لئے سورۂ بقرہ کي انتيسويں آيت ميں خداوند عالم فرماتا ہے :

ھو الّذي خلق لکم مّا في الارض جميعا" ثمّ الستوي الي السّماء فسوّا ھنّ سبع سموات و ھو بکلّ شيء عليم

( يعني) وہي وہ ( اللہ ) ہے جس نے جو کچھ بھي زمين ميں ہے سب کچھ تمہارے لئے پيدا کيا پھر آسمانوں کي خلقت کي طرف متوجہ ہوا اور محکم و استوار سات آسمانوں کي صورت بنادي اور وہ ہر چيز سے آگاہ و باخبر ہے -

عزيزان محترم! خداوند منان نے ہم کو پيدا کرنے کے ساتھ ہماري راحت و آسائش کے اسباب بھي فراہم کئے ہيں چنانچہ زمين اور آسمان کي تخليق بھي انسانوں کے لئے کي ہے اور انہيں انساني ہاتھوں ميں مسخر کرديا ہے اور تمام چيزيں انسان کے اختيار ميں ديدي ہيں کيونکہ انسان خدا کي عظيم ترين مخلوق ہے اور تمام جمادات ، نباتات اور حيوانات سے بلند و برتر ہے اور اس بات کو قرآن نے اپني کئي آيات ( سورۂ نحل / 21 ، 22 ، سورۂ فصلت / 9 ، 10 ، سورۂ ابراہيم/ 32،33 ) ميں بھي اعلان کيا ہے ، سورۂ جاثيہ کي تيرہويں آيت ميں خدا فرماتا ہے: سخّر لکم ما في السّموات و الارض يعني جو کچھ بھي آسمانوں اور زمين ميں ہے ( اللہ نے) تمہارے دخل و تصرف ميں قرار ديديا ہے تا کہ انسان تمام الہي نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور چونکہ تمام چيزيں اللہ کي ہي نشانياں ہيں ان ميں " توحيد" کي دعوت بھي موجود ہے اور انساني تہذيب و تربيت کا سامان بھي فراہم ہے توحيد کي دعوت اس جہت سے ہے کہ سب چيزيں اللہ کي نشاني ہيں پس کوئي بھي غير اللہ ان کا خالق و مدبر نہيں ہوسکتا اور يہي چيز انسان کو متوجہ کرتي ہے کہ جب زمين و آسمان کے درميان جو کچھ ہے اللہ نے ہمارے لئے پيدا کيا ہے تو ہم اللہ کے بجائے اس کي کسي اور مخلوق کي عبادت کيوں کريں ؟ انسان کو دنيا کي تمام اشياء سے صرف مادي فائدہ نہيں بلکہ معنوي فائدہ بھي اٹھانا چاہئے يعني چيزوں کا استعمال کريں اور ان کے خالق کي معرفت کے ذريعہ عقيدۂ توحيد کو بھي مستحکم کريں چنانچہ زمين و آسمان کا کمال يہ ہے کہ وہ انسان کے کام آئے اور انسان کا کمال يہ ہے کہ وہ خدا کي پرستش کرے اور يہ سمجھے کہ سب کچھ ہمارے لئے اور ہم خدا کے لئے ہيں چنانچہ اسي موضوع کي طرف سورۂ طلاق کي 12 ويں آيت ميں خدا نے متوجہ کيا ہے کہ اللہ ہي وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور ان کے مثل زمين ( بھي بنائي ) اس کا حکم ان کے درميان آتا ہے کہ تم خدا کے عليم و قدير کي معرفت پيدا کرو اور تمہارے اندر توحيدي بصيرت اور طرز تفکر پيدا ہوجائے لتعلموا انّ اللہ علي کل شيء قدير -

معلوم ہوا ہر وہ نعمت جو خدا نے انسان کو دي ہے انسان کے معنوي ارتقاء اور عقيدۂ توحيد کے استحکام کے ساتھ خود اپني تہذيب و تربيت کےلئے ہے اور انسان کا فريضہ ہے کہ وہ تمام مادي نعمتوں کو معنوي کمال اور خداؤ قيامت کي يادوں کا مقدمہ قرار دے ورنہ اگر انسان نے صرف مادي نعمتوں کا حصول اپنا ہدف و مقصد قرار ديا تو يہ بہت بڑي خسارت ہوگي اگرچہ دنيا ميں حق و ايمان کے خريداروں کي کمي نہيں ہے اور چھوٹي چھوٹي نعمتوں کے لئے اپنے دين و ايمان بيچ دينے والوں کي بھي کمي نہيں ہے حتي پيغمبر اعظم(ص) کو بھي خريدنے کي کوشش کي گئي تھے جس کے جواب ميں ، اپنے پيرووں کي تربيت کے لئے مرسل اعظم(ص) نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے توسط سے کفار و مشرکين کو پيغام ديا تھا : " اے چچا خدا کي قسم! اگر يہ لوگ ( دين حق سے دست بردار ہوجانے کے عوض) ميرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائيں ہاتھ پر ماہتاب قرار ديديں تو بھي ميں يہ ( حق کي تبليغ) نہيں چھوڑوں گا-" ( سيرۂ ابن ہشام جلد اول ص 266)

- موجودات کي حيات وجود خداوندي کي دليل ہے اور موجودات کي موت معاد اور قيامت کے وجود کي علامت ہے -

- انسان کي اپني پہچان خدا کي معرفت کا پيش خيمہ ہے اگر کوئي انسان اپنے وجود کي حقيقت کو سمجھ لےتو خدا کي معرفت ، ادني سطح پر صحيح، پيدا ہوجائے گي کيونکہ انسان سمجھ لے گا ميرا جو کچھ ہے ميرا پيدا کردہ نہيں ہے خدا کي طرف سے ہے تو يہي معرفت کا پہلا زمينہ بن جائے گا -

- انساني کمال کي آخري منزل خدا تک پہنچ جانا ہے چنانچہ موت پر زندگي ختم نہيں ہوتي بلکہ يہ ايک دوسري زندگي کا مقدمہ ہے خدا تک ہر اچھے برے انسان کو پلٹنا اور اپنے اچھے برے دائمي انجام تک پہنچنا ہے -

- انسان تمام زميني اور آسماني مخلوق سے بالا و برتر ہے لہذا سوائے اپنے خالق و پروردگار کے کسي کي بھي عبادت کرنا اسے زيب نہيں ديتا - دنيا ، انسان کے لئے ہے نہ کہ انسان دنيا کے لئے اس لئے دنيا کے بجائے خدا کو اپنا ہدف و مقصد قرار دينا چاہئے -

بشکريہ آئي آر آئي بي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان